تحریر: نذر حافی
قائداعظم محمد علی جناح کے بقول کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ جو لوگ نظریہ پاکستان کے حامی ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے بنایا جانے والا ملک ہے، ان کی زبانوں پر ہر وقت یہ نعرہ رہتا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ اسی طرح کشمیر میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو کشمیر بنے گا خود مختار کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یعنی کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو ایک حکمت عملی کے تحت دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، کچھ احباب کشمیر بنے گا پاکستان، کے قائل ہیں اور کچھ کشمیر بنے گا خود مختار کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو کشمیر سے مخلص نہیں ہیں اور وہ ہندوستان سمیت دیگر ممالک کے وظیفہ خور ہیں، وہ کسی طور بھی نہیں چاہتے کہ لوگ نظریہ پاکستان یا مسئلہ کشمیر کو حقیقی معنوں میں سمجھیں۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ جب مسلمانوں نے ہندوستان کی غلامی سے نجات کے لئے تحریک چلائی تھی تو انہوں نے اسی وقت علامہ اقبالؒ کو ایک دیوانہ، پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافراعظم کہا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ لوگ پاک فوج کو توڑنے کے لئے پاک فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں اور آج بھی پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں۔ یہ صرف پاکستان آرمی کو ہی کافر نہیں کہتے بلکہ ہر اس شخص کو کافر کہتے ہیں، جو اپنے وطن کی حفاظت اور آزادی کی جنگ لڑتا ہے۔ کوئی چاہے کشمیر بنے گا خود مختار کہے یا کشمیر بنے گا پاکستان کہے، ان کے نزدیک کافر ہے اور وہ کفر کی جنگ لڑ رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کی آرمی مختلف اندرونی و بیرونی محاذوں پر اپنے وطن کی حفاظت کے لئے اپنا خون بہا رہی ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ تو طالبان کے کتے کو بھی شہید کہتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور دوسری طرف کچھ لوگ کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر بنے گا خود مختار کہنے والوں کو بھی کافر اور ان کی جنگ آزادی کو کفر کی جنگ کہتے ہیں۔ یہاں پر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں ایک بڑا اور معتبر نام لبریشن فرنٹ کا بھی ہے۔ لبریشن فرنٹ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ مقامی کشمیریوں کی تنظیم ہے اور اپنے وطن کی آزادی و خود مختاری کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ شہید بلاتفریق تمام کشمیریوں کے ہیرو ہیں، انہیں قائد حریت کشمیر، بابائے قوم اور شہید حریت کہا جاتا ہے اور سب کشمیری ان کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح جتنی بھی تنظیمیں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتی ہیں، ان کے اس کے نعرے کے پیچھے ان کی دین اور وطن سے محبت ہی کارفرما ہے۔ مقبول بٹ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں پیدا ہوئے، بی اے کرنے کے بعد 1958ء میں پاکستان آگئے، اردو ادب میں ماسٹرز کے علاوہ آپ نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔ 1961ء میں آپ نے پشاور سے کشمیری مہاجرین کی نشست پر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اپریل 1965ء میں آپ نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی جماعت محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی، بعد ازاں آپ نے اپنے ایک دوست امان اللہ خان کے ساتھ مل کر 29 مئی 1977ء کو کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد بھی رکھی۔
آپ بنیادی طور پر، تحریک آزادی پاکستان اور تحریک آزادی فلسطین سے بہت متاثر تھے، 10 جون 1966ء تنظیم سازی کے لئے آپ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے، 14 ستمبر 1966ء کو آپ کو مقبوضہ کشمیر میں قید کر لیا گیا، اگست 1968ء میں مقبوضہ کشمیر ہائیکورٹ نے آپ کو اس مقدمے میں سزائے موت سنائی۔ 9 دسمبر 1968ء کو آپ مقبوضہ کشمیر کی جیل سے فرار ہو کر پاکستان آگئے، پاکستان میں بھی ہر محب وطن لیڈر کی طرح آپ نے بھی مختلف مشکلات کا سامنا کیا اور کشمیر کی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا، 30 جنوری 1971ء کو آپ کے تربیت یافتہ دو نوجوان ہاشم قریشی اور اشرف قریشی بھارت کا ایک طیارہ اغواء کرکے لاہور لے آئے۔ ہائی جیکروں کا مطالبہ تھا کہ بھارتی جیلوں میں جدو جہد آزادی کے قید کچھ کارکنوں کو رہا کیا جائے، بھارت نے جب مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تو یکم فروری 1971ء کو مسافروں کو آزاد کرنے کے بعد طیارے کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اس واقعے کو پاکستانی قوم نے بہت سراہا اور کھل کر مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی، اس سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں بہت مدد ملی۔ آپ مئی 1976ء میں دوبارہ اپنے آبائی وطن مقبوضہ کشمیر گئے، جہاں آپ کو دوبارہ قید کر لیا گیا۔ 11 فروری 1984ء کو آپ کو مقبوضہ کشمیر میں پھانسی دی گئی، پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالنے کے بعد آپ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ۔۔۔ میرے وطن تو ضرور آزاد ہوگا۔۔۔۔۔ اس مرد مجاہد کی لاش کو وہیں تہاڑ جیل میں ہی دفن کیا گیا۔ کیا ایسے نڈر اور بیباک مسلمان رہنماوں اور جوانوں کی جنگ آزادی کو کفر کی جنگ کہنا ہندوستان اور سعودی عرب کے ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کچھ اور ہے۔
وطن کے دفاع کے لئے جس طرح پاکستان میں افواجِ پاکستان کی قربانیوں کا کسی اور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح کشمیر میں لبریشن فرنٹ اور دیگر تنظیموں کے شہداء کی قربانیاں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے چاہے کشمیر بنے گا پاکستان، کا نعرہ لگائیں یا کشمیر بنے گا خود مختار، کی آواز بلند کریں، ان کی جنگِ آزادی کو کفر کی جنگ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب تک جتنے لوگوں نے اس راستے میں جانیں دی ہیں، نعوذ باللہ وہ کفر کے راستے میں مرے ہیں۔! ہمارے نزدیک تمام کشمیری شہداء محترم اور مقدس ہیں اور کشمیر کی جدوجہد آزادی میں شامل تمام تنطیمیں ایک مقدس فریضے کی ادائیگی میں کوشاں ہیں۔ اس وقت ہم آپ کی خدمت میں یہ لنک بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں، جس پر ایک معروف مولانا صاحب کی گفتگو آپ خود سن لیں کہ وہ کس طرح دھڑلے سے کشمیر کی جنگ آزادی کو کفر کی جنگ کہہ رہے ہیں:https://youtu.be/Wqq1vwOCZJY
اس ویڈیو میں مولانا صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ جو شخص کشمیر میں جہاد کی بات کرتا ہے، اس سے پوچھو کہ تمہیں لاہور میں ہجویری کا دربار نظر نہیں آتا۔۔۔۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم گندگی کو قالین کے نیچے دبانے کے بجائے لوگوں کو صاف بتائیں کہ یہ کون لوگ ہیں کہ جن کے نزدیک کشمیریوں اور پاکستانیوں کا اپنے وطن کا دفاع تو کفر کی جنگ ہے، لیکن ہندوستان اور آل سعود کی حکومتوں کا دفاع واجب ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو داتا دربار کو تو شرک کا اڈہ کہتے ہیں اور ٹرمپ کے رخسار چومتے ہیں، جو کشمیر اور وطن عزیز پاکستان کے دفاع کی جنگ کو کھلے عام کفر کی جنگ کہتے ہیں جبکہ سعودی عرب کے دفاع کے لئے لشکر اکٹھے کرتے ہیں، سپاہیں بناتے ہیں اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ یاد رکھئے! گندگی کو جتنا قالین کے نیچے چھپائیں گے، تعفن اتنا ہی زیادہ پھیلے گا۔/۹۸۸ / ن۹۴۰