12 July 2017 - 23:15
News ID: 428974
فونت
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے نتیجے میں دونوں فریقین یعنی مدعا علیہ اور استغاثہ کے دلائل اور جوابی دلائل سنے بغیر سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ جاری نہیں کرے گی۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل سپریم کورٹ کا بینچ جس نے ۵ رکنی بینچ میں اکثریتی فیصلہ دیا تھا جس کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف اور اْن کے خاندان کو رقوم کی ترسیل ثابت کرنے کا ایک موقع فراہم کیا گیا تھا، پیر کے روز سماعت کرتے ہوئے اس مشترکہ تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے کیا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔
نواز شریف

تحریر: تصور حسین شہزاد

پاناما لیکس پر تحقیقات کرنیوالی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے جس کے بعد ملک بھر میں چہ مگوئیاں جاری ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اگر نااہلی سے بچنا چاہتے ہیں تو واحد راستہ یہی ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کیساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی مستعفی ہو جائیں، کیونکہ ایسا کرنے سے نااہلی کی کارروائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی ہے اُس کے مطابق بظاہر وزیراعظم نواز شریف کیلئے آپشن انتہائی محدود ہوگئے ہیں۔ تاہم معروف قانون دان اور وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے میڈیا کیساتھ بات چیت میں بتایا کہ یہ تفتیشی افسروں کی رائے پر مبنی ایک رپورٹ ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دینا مشکل ہوگا۔ سپریم کورٹ صرف یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیا کسی فوجداری عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جائے یا نہیں۔ اْن کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی نظیر موجود نہیں کہ کسی تفتیشی افسر کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے۔ تاہم اْنہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ یہ طے کر لیتی ہے کہ اس رپورٹ پر ہی اسے فیصلہ کرنا ہے تو اس میں صرف چند ہفتے ہی درکار ہوں گے لیکن اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں اور تفتیشی ٹیم نے معاملہ آگے نہیں بڑھایا ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے اپنا فیصلہ دیا تھا تو اْس فیصلے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ بہت سی چیزیں مبہم ہیں اور تمام واقعات واضح نہیں ہیں۔ اْس وقت شریف خاندان کی طرف سے عدالت میں یہ کہا گیا تھا کہ چالیس پچاس سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے کاروبار کا تمام تر ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں اور اس رپورٹ میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اْس وقت 5 میں سے 5 جج صاحبان کا کہنا تھا کہ پیش کردہ ریکارڈ کی بنیاد پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اگر اْس وقت پیش کی گئی تفصیلات میں اب بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے تو صرف یہی امکان باقی رہ جاتا ہے کہ مزید تفتیش کیلئے یہ معاملہ کسی اور عدالت میں بھیجا جائے اور یہ عدالت فوجداری ٹرائل کورٹ ہی ہو سکتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ کے مطابق اس رپورٹ پر بہت سے اعتراضات سامنے آئیں گے۔ اس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر بھی سوال اْٹھائے جائیں گے۔ تاہم اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اسے فوجداری عدالت میں بھیجا جائے تو فوجداری عدالت اپنا وقت لے گی۔ ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی ٹیم شروع ہی سے متنازعہ رہی ہے اور اس کی رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کیلئے کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل ہوگا۔ تاہم سپریم کورٹ مزید تفتیش کیلئے یہ مقدمہ فوجداری عدالت میں بھیج سکتی ہے۔ رپورٹ میں البتہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اور اْن کے خاندان نے جن اثاثوں کی تفصیل پیش کی ہے اْن کے مطابق شریف خاندان کی آمدنی اور اْن کے انداز زندگی اور اخراجات میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اْنہوں نے اپنے تمام تر اثاثے ظاہر نہیں کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شریف خاندان کی مزید آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں متعدد دوسرے ملکوں کے علاوہ سعودی عرب میں قائم ہل میٹلز اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ میں قائم فلیگ شپ انویسٹ منٹ لمیٹڈ اور متحدہ امارات میں قائم کمپنی کیپٹل ایف زیڈ ای شامل ہیں۔ ان کمپنیوں کے شدید نقصان میں ہونے کے باوجود ان کے ذریعے قرض اور تحائف پر مبنی خطیر رقوم کی ترسیل نواز شریف اور اْن کے بیٹے حسین کو کی گئیں تھیں۔

تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کوٴاسموک سکرین کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لین دین کو مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تفتیشی ٹیم میں شامل ایف آئی اے نے سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر حجازی پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اْنہوں نے اپنے ماتحت عملے پر دباؤ ڈالتے ہوئے، حقائق کو وزیراعظم نواز شریف کے حق میں تبدیل کر دیا اور یوں انصاف کی راہ میں حائل ہوئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اْن کیخلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کی صاحب زادی نے حکومت کی جانب سے مشترکہ تفتیشی ٹیم کی اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد نواز شریف حکومت کے چار سینئر وزراء نے بھی ایک پریس کانفرنس میں رپورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ عمران خان کے ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے تیار کی گئی ہے۔ بیشتر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے نتیجے میں دونوں فریقین یعنی مدعا علیہ اور استغاثہ کے دلائل اور جوابی دلائل سنے بغیر سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ جاری نہیں کرے گی۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل سپریم کورٹ کا بینچ جس نے 5 رکنی بینچ میں اکثریتی فیصلہ دیا تھا جس کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف اور اْن کے خاندان کو رقوم کی ترسیل ثابت کرنے کا ایک موقع فراہم کیا گیا تھا، پیر کے روز سماعت کرتے ہوئے اس مشترکہ تفتیشی کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے کیا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬