رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے محرم الحرام 1439ھ کے آغاز پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ آغوش رسالت میں آنکھ کھولنے والا حسینؑ کس طرح رسول اکرم کی نیابت کا حق دار نہیں ہوسکتا؟ امیر المومنینؑ کے سایہ عاطفت میں تربیت پانے والا حسینؑ کیسے امت کو اور دین کو فسق و فجور کے طوفان میں تنہا چھوڑ سکتا ہے؟ سیدہ خاتون جنت کی پاکیزہ گود میں پرورش پانے والا حسینؑ کیسے دین خدا اور شریعت محمدی پر ملوکیت کے سائے برداشت کرسکتا ہے؟ امام حسن ؑ جیسے کریم و شفیق اور امن کی علامت شخصیت کا بھائی حسین ؑ بھلا کیسے امت میں بگاڑ اور فتنہ و فساد پر خاموش رہ سکتا ہے؟ان تمام حوالوں کا حامل انسان اور عہدہ امامت جیسی ذمہ داری پر فائز شخص یقینا اپنا فریضہ سمجھتا ہے کہ جب وہ دیکھے کہ قرآنی احکامات کا تمسخر اڑایا جارہا ہو۔ اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالا جارہا ہو‘ الہی نظام کی جگہ ملوکیت نافذ کی جارہی ہو اور دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی مہم جاری ہو تو اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عظیم الہی او ر قرآنی فریضہ انجام دینا چاہیے اور اس فریضے کی بجاآوری امام عالی مقام کے سفر‘ جدوجہد اور شہادت کا سبب اور مرکز و محور تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواسہ رسول اکرم ‘ فرزند علی و بتول ؑ‘ محسن انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد اور واقعہ کربلا سے الہام لینے اور استفادہ کرنے کا سلسلہ61 ھجری سے آج تک جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا دنیا میں حریت پسندی کی ہر تحریک کربلا کی مرہون منت نظر آتی ہے اور دنیا کی تمام حریت پسند تحریکیں امام حسین ؑ کی شخصیت سے متاثر نظر آتی ہیں۔ دور حاضر میں بھی دنیا کے مختلف حصوں میں آزادی‘ استقلال اور حریت پر مبنی تحریکیں بھی کربلا اور حسینیت سے استفادہ کررہی ہیں اور ظلم و تجاوز کے خلاف حسینی عزم کے ساتھ جدوجہد کررہی ہیں۔برما (میانمار)کے مظوم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر پاکستان سے اٹھنے والی صدائے احتجاج حوصلہ افزا ہے۔اس کے علاوہ انسانی حقوق کے حصول کے لئے سرگرم‘ نظام کی تبدیلی کے خواہاں اور ذاتی و اجتماعی اصلاح کا عزم لئے ہوئے طبقات غرض یہ کہ دنیائے انسانیت کے تمام انسان امام حسین ؑ اور ان کے ساتھیوں کی سیرت‘ عمل‘ کردار اور جدوجہد سے رہنمائی لے رہے ہیں۔ چونکہ معاشرے کے اجتماعی مسائل کے حل اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے ایک مشن کی ضرورت ہوئی ہے اس لئے امام حسین ؑ کی جدوجہد کو ایک مشن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
حجت الاسلام ساجد علی نقوی نے کہا کہ امام حسین ؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کی یاد منانے کے لئے صدیوں سے پوری دنیا میں ”عزاداری سید الشہداء“ کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان حتی کہ انسان اپنے اپنے طریقے سے عزاداری مناتے ہیں اور امام حسین ؑ کی لافانی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے عزاداری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب پاکستان اس حوالے سے مرکز و محور بن چکا ہے اور کروڑوں فرزندان اسلام پورا سال بالعموم اور ایام محرم میں بالخصوص عزاداری کی محافل اور مجالس منعقد کرتے ہیں چونکہ عزاداری سید الشہداء ؑظلم و جبر کے خلاف جہاد کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے اور اس سے انسان کے ذاتی رویے سے لے کر اجتماعی معاملات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے اس لئے انتہا پسند خیالات کے حامی طبقات عزاداری کے مخالف اقدام کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق عزاداری منانا ہر شہری کا آئینی‘ قانونی‘ مذہبی اور شہری حق ہے لیکن ایام عزا کی آمد سے قبل ہی ملک میں سنسنی ‘ خوف‘ بدامنی یا جنگ کا سماں پیدا کیا جاتا ہے جو ہرگز درست نہیں ۔ کرفیو اور سنگینوں کے سائے تلے عزاداری و ماتم داری قابل قبول نہیں کیونکہ محرم الحرام کسی جنگ، خوف یا بدامنی کا پیغام بن کر نہیں آ رہا ہے بلکہ ایام عزاءمسلمانوں کے درمیان دین محمدی اور اہلبیت محمد کی محبت وعقیدت میں اضافے اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کا پیغام عام کرنے کے لیے ایک حسِین موقع کے طور پر آتا ہے ۔صورت حال کو کنٹرول کرنا ریاست‘ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہ ایام محرم الحرام کے دوران تمام مسالک کے علماء‘ خطباء‘ مقررین‘ ذاکرین ‘ رہنماﺅں اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو اتحاد بین المسلمین‘ وحدت امت اور امن و امان کی طرف متوجہ کریں اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کرنے کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ تحمل‘ برداشت اور تعاون کا ماحول پیدا کریں انتہا پسندوں اور دہشتگردوں سے لاتعلقی کا اعلان کریں۔دہشت گردوں ‘ فرقہ پرستوں‘ مذہبی جنونیوں اور شرپسندوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں ۔ حکومت کے مثبت اقدامات میں تعاون کریں۔ امن کمیٹیوں اور اتحاد بین المسلمین کمیٹیوں میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تاکہ محرم الحرام بخیر و خوبی اور امن و آشتی کے ساتھ گزرے اور مستقبل میں بھی مکمل طور پر اتحاد و وحدت کی فضا قائم ہو اور اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذاوراسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد آسان ہو۔/۹۸۹/ف۹۴۰/