رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب پر اعتماد کو روس کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب نے بھی روس کے اعتماد کو ماسکو کی کمزوری سمجھ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔
سوچی شہر میں ہونے والے والدائی ڈسکشن کلب میں دنیا کے تینتیس ملکوں کے ایک سو چھتیس ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مغربی دنیا کے بارے میں اپنے ملک کی پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔
صدر پوتن نے کا کہنا تھا کہ مغرب پر حد سے زیادہ اعتماد کرنا پچھلے پندرہ برس کے دوران روس کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مغرب نے بھی روس کے اعتماد کو ماسکو کی کمزوری سمجھ کر اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، جو مغرب کی بہت بڑی غلطی ہے۔
روسی صدر نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان غلطیوں کی اصلاح ہونا چاہیے اور فریقین کے درمیان تعلقات کو باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر استوار کئے جانے کی ضرورت ہے۔
صدر ولادیمیر پوتن نے رشیافوبیا، روسی سفارت خانوں کی بندش اور روسی پرچم اتارے جانے کو روس اور یورپ کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی روکاوٹیں قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے جس کے لیے ماہرین کی رائے درکار ہے اور اس فورم میں میری شرکت کا مقصد بھی یہی ہے۔
روسی صدر نے یاد دہانی کرائی کہ امریکہ میں روس مخالف نظریات کا ایسا پرچار کیا جا رہا ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی لہذا امریکی اقدامات پر میری تنقید پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔
صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ قرائن و شواہد اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ شام میں دہشت گردوں کا خاتمہ بہت قریب ہے اور میں بہت ہی احتیاط کے ساتھ کام لیتے ہوئے یہ اعلان کر رہا ہوں کہ ہم شام میں دہشت گردوں کا جلد خاتمہ کر دیں گے۔
روسی صدر نے واضح کیا کہ بحران شام کے حل کی کوششیں مثبت سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں تاہم اس میں اب بھی بہت سے رکاوٹین باقی ہیں۔
انہوں نے کہا ہم ایران، ترکی اور شام کی حکومتوں کی قدردانی کرتے ہیں کہ انہوں نے اس اہم مسئلے میں الجھے ہوئے اہم فریقوں کو جنگ بندی کے لیے آمادہ کرنے کی غرض سے ان کے نظریات کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کا اشارہ شام میں قیام امن کے لیے دو سال سے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں جاری امن مذاکرات کی طرف تھا جو روس، ایران اور ترکی کی میزبانی میں ہو رہے ہیں۔