رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے امریکی سی بی ایس ٹی وی چینل سے گفتگو میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ سعودی عرب اور تین عرب ممالک ایران کے ساتھ حد سے زیادہ دوستی کا الزام لگاتے ہیں، کہا ہے کہ ایران، قطر کا ایک پڑوسی ملک ہے اور ایران کے ساتھ قطر کے تعلقات، سعودی عرب اور ان تین عرب ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع ہیں۔
امیر قطر نے اکّیس برس قبل اور اپنے والد حمد جن خلیفہ آل ثانی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب نے اس سے قبل بھی قطر میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ نے دوحہ سے درخواست کی تھی کہ قطر میں طالبان کی میزبانی کی جائے اور اس گروہ کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ امریکہ اس گروہ سے مذاکرات کر سکے۔
امیر قطر نے بحران کے حل کے لئے بائیکاٹ کرنے والے چاروں عرب ملکوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قطر اختلافات کا خاتمہ ضرور چاہتا ہے مگر قومی اقتداراعلی سے بڑھکر کوئی چیز نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ قطر اپنے داخلی امور میں کسی کو بھی مداخلت کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا جبکہ بائیکاٹ کرنے والے عرب ممالک، قطر کی آزادی اور آزادی بیان کے خلاف ہیں۔
ادھر بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے چار عرب ملکوں کے مطالبات کی تکمیل کے لئے خلیج فارس تعاون کونسل میں قطر کی رکنیت معطل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ قطر نے اگر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا تو بحرین، خلیج فارس تعاون کونسل کے آئندہ سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہو گا۔
سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان اور کویت، خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب اور مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے اس کے عرب اتحادی ملکوں نے پانچ جولائی دو ہزار سترہ سے یہ کہتے ہوئے کہ دوحہ، ریاض کی زیر قیادت عرب اتحاد کے ساتھ نہیں ہے، قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع اور اس ملک کا تینوں راستوں سے محاصرہ کر رکھا ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰/