تحریر: این ایچ نقوی
امسال اربعین حسینی کے لئے جانے والے زائرین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ویزوں کے حصول کی دشواری سے لیکر صوبائی حدود کو کراس کرنے پر پولیس کے ہاتھوں روکے جانے کی مصیبت، کانوائے کے انتظار کی اذیت ناک زحمت اور پھر تفتان میں ایف آئی اے امیگریشن دفتر اور فورسز کی بربریت کا شکار ہوئے۔ زائرین پر ہونے والے ان مظالم کا ٹریک ریکارڈ ہمارے سامنے ہے، تاہم اس سال یہ تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے قدم قدم پر زائرین کو مشکلات کا شکار کیا گیا۔ یہ امر واضح ہے کہ براستہ روڈ کوئٹہ اور تفتان کے پرخطر روٹ سے وہی زائرین امام حسین علیہ السلام جاتے ہیں، جن کے مالی وسائل کم ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ ایک زائر کی عتبات عالیہ روانگی کے لئے قافلے کا انتخاب ہوتا ہے، پاکستان میں کاروباری طبقہ اس طرف امڈ آیا ہے اور منافع خور طبقے نے قافلہ سالاری اپنا لی ہے، جنہیں زائرین کی فلاح سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں ہوتا، ان کے مدنظر صرف اور صرف اپنا منافع ہوتا ہے، چاہے جیسے اور جس راستے سے آئے۔ زائرین کو طرح طرح کے پیکیج اور وعدے دیئے جاتے ہیں اور بعد ازاں انہیں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کئی مسائل انہی ناتجربہ کار قافلہ سالاروں کی غفلت اور ناتجربہ کاری کے باعث پیش آتے ہیں۔ اس اہم ایشو پر پاکستان میں کوئی مناسب قانون سازی موجود نہیں، جس کے باعث دیگر ممالک میں بھی پاکستانی زائرین کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی ایمبیسی اور چار قونصلیٹ زائرین کو بروقت ویزے دینے میں بری طرح ناکام رہے اور پورے ملک سے بڑے پیمانے پر شکایات میڈیا تک پہنچیں۔ میڈیا نے خبروں کا نوٹس لیا اور زائرین کے احتجاج اور آہ و زاری کو دکھایا، جس پر ایرانی سفیر نالاں دکھائی دیئے اور دعویٰ کیا کہ زائرین کا سیلاب اُمڈ آیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ویزے دینے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب عراق کی ایک ایمبیسی پورے ملک کے زائرین کو بروقت ویزے ایشو کرتی رہی۔ کیا پاکستانی زائرین کی تعداد ایران سے اربعین حسینی پر جانے والے زائرین سے بھی زیادہ تھی کہ ایسا سلوک کیا گیا اور ایک بڑی تعداد چہلم امام حسین علیہ السلام پر جانے سے قاصر رہ گئی۔ زائرین سے میڈیکل کی مد میں رقوم بٹورنے کی خبریں میڈیا پر شائع ہوئیں تو مجبوراً میڈکل ہی ختم کر دیا گیا۔ ڈراپ باکس میں بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں تو کہا گیا کہ ڈراپ باکس کی بجائے کوئی بھی رجسٹرڈ ایجنسی زائرین کے لئے ویزے لگوا کر لیجا سکتی ہے۔ تاہم دوسرا اقدام وقت گزرنے کے بعد کیا گیا، جس کا زائرین کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ اسی طرح ای ویزا کے لئے استعمال کئے جانے والے سافٹ ویئر کے باعث بھی زائرین دربدر ہو کر رہ گئے، ڈیٹا ٹرانسفر اور ڈیٹا لاکنگ کے علاوہ مہارت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث زائرین کے لئے ایرانی ویزے کا حصول درد سر بنا۔
بڑی تعداد میں زائرین کو بغیر ویزہ ہی کوئٹہ پہنچا دیا گیا۔ جہاں اذیتوں کا اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ کوئٹہ میں زائرین کی باگ ڈور بلوچستان شیعہ کانفرنس کے ہاتھ میں دی جاتی ہے، جو زائرین کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے حقوق کے لئے حکومت سے بات چیت کرتے ہیں۔ حکومت سے زائرین کے لئے کانوائے اور این او سی بھی بلوچستان شیعہ کانفرنس ہی لینے کی کوشش کرتی ہے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس ہر بس سے پانچ ہزار لیا کرتی تھی، جسے اس مرتبہ بند کیا گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پورے پاکستان سے تعلق رکھنے والے زائرین کے مسائل اور حقوق کے لئے ملکی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو زائرین کی فلاح اور ان کے حقوق کے لئے ہمہ وقت کام کرے۔ بلوچستان شیعہ کانفرنس حکومت سے زائرین کے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بعض تنظیمیں حالات دگر گوں ہونے کے بعد حکومت کے در پر جا بیٹھتی ہیں اور بھیک مانگی جاتی ہے، جو ایک انتہائی گھٹیا طریقہ ہے، وقت سے پہلے تدبیر کیوں نہیں کی جاتی کہ زائرین پر ایسے مظالم وقوع پذیر ہی نہ ہوں اور بعد ازاں عوام کو طفل تسلیاں دینے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
محرم اور صفر کے لئے بروقت کانوائے ملنے کی صورت میں ہی زائرین بروقت مختلف مناسبتوں پر پہنچ سکتے ہیں۔ جب یہ تحریک لکھی جا رہی ہے تو اس وقت بھی کوئٹہ میں گورنر ہاوس کے سامنے زائرین کانوائے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیراعلٰی بلوچستان نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے بیان داغ دیا ہے کہ زائرین کوئٹہ نہ آئیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر ہم انہیں کہیں گے کہ وہ ایک سابق وزیراعلٰی بلوچستان کا حشر نہ بھولیں۔ ہماری وزارت مذہبی امور اور حکومتی ادارے سکھ یاتریوں کے لئے اور دیگر جن میں بہائی بھی شامل ہیں، ان کے لئے تو ہر طرح کے انتظامات کر دیتے ہیں، تاہم زائرین سیدالشہدا (ع) کے لئے آج تک وزارت مذہبی امور نے کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں اٹھایا، حالانکہ وزارت میں حج، عمرہ اور زیارات کے نام سے ایک خصوصی سیل بھی موجود ہے۔ کوئٹہ میں کئی کئی دن احتجاج کے بعد زائرین کو کانوائے فراہم کیا جاتا ہے، اس کے بعد اگلا کڑا امتحان تفتان ہے، جہاں اس دفعہ اربعین کے موقع پر صرف دو اہلکار موجود تھے، جو زائرین کے امیگریشن پراسیس میں بری طرح ناکام رہے اور یوں ہزاروں زائرین نے کئی دن اور کئی راتیں کھلے آسمان تلے سردی میں گزاریں اور اربعین حسینی کے لئے بھی بروقت نہ پہنچ سکے۔ بھگدڑ اور لاٹھی چارج کے باعث کئی خواتین بھی شہید ہوئیں اور یوں ہمارے اداروں، ملی تنظیموں اور متعلقہ ویزہ دفاتر کے ہاتھوں زائرین پر ظلم کے تمام ٹریک ریکارڈ توڑے گئے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰