‫‫کیٹیگری‬ :
08 November 2017 - 12:27
News ID: 431709
فونت
اهل بيت اطھارعليهم السلام کی روايتوں میں مختلف طریقہ سے زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت بیان کی گئی ہے ، مختلف روایتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر انسان، ائمہ اطھار کا حق ادا کرنا چاہتا ہے تو ضرور ان کی قبر کی زیارت کو جائے ۔
زائرین اربعین حسینی

تحریر:‌ رسا فارسی سائٹ

ترجمہ : سید اشھد حسین نقوی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جس وقت سے جابر بن عبداللَّه انصارى نے اپنی کہولت سن اور نابینا ہونے کے باوجود مدینے سے کربلا تک کا راستہ طے کیا [1] ، راستے کی صعوبتوں اور مشکلات کے باوجود ۲۰ صفر کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلائے معلی پہونچے [2] اور خوب گریہ و نالہ کیا [3] آپ نے ایک بامعنی زیارت قبر حضرت کے پاس پڑھی اور آنسو بہائے ۔ [4]

اهل بيت عليهم السلام  کے قافلہ کو چہلم کے دن کربلا پہونچنے ، جابر بن عبداللَّه انصارى اور عطیہ کی اہل حرم سے ملاقات [5] اور چہلم کے دن امام زين العابدين عليه السلام کے ہاتھوں حضرت کے سر کو کربلا میں دفن کیا جانا [6] تمام کا تمام زیارت اربعین کی اہمیت کا بیانگر ہے ، ہم اسی بنیاد پر اربعین کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے آداب کی مراعات کرتے ہیں ۔ [7]

اسلام میں زیارت کی اہمیت

اهل بيت اطھارعليهم السلام کی روايتوں میں مختلف طریقہ سے زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام کی اہمیت بیان کی گئی ہے ، مختلف روایتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر انسان، ائمہ اطھار کا حق ادا کرنا چاہتا ہے تو ان کی قبر کی زیارت کو جائے [8] ، اپنی مرضی اور رغبت سے حضرت کی زیارت کو جانے کا مقصد آپ کے مکتب کے تائید ہے ، اس کے نتیجے میں قیامت کے دن حضرت بھی اپنے زائرین کی شفاعت کریں گے [9] ۔

زيد شحّام، امام صادق عليه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ہم اہل بیت کا زائر ایسا ہے جیسے اس نے رسول اللَّه صلى الله عليه و آله کی زيارت کی ہو ، اور رسول اللَّه صلى الله عليه و آله کا زائر عرش الھی پر خدا کا زائر ہے [10] ۔

عيسى بن راشد، امام صادق عليه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ جو بھی اماموں میں سے کسی امام کی زیارت کو جائے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کرے اس کے حق میں حجّ و عمره کا ثواب لکھا جائے گا .[11]،[12] ۔

زیارت امام حسین علیه السلام کا ثواب مرسل آعظم (صلی الله علیه و آله) کی زبانی

جابر بن عبداللَّه انصارى سے منقول ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه و آله اپنے اہل بیت (ع) کی شھادت کی خبر دے رہے تھے اور جب اپ کے فرزند حسين عليه السلام نے زائرین کے سلسلے میں دریافت کیا تو رسول اكرم صلى الله عليه و آله نے جواب دیا « يا بُنَيَّ، اولئِكَ طَوائِفُ مِنْ أُمَّتى ، يَزُورُونَكُمْ، فَيَلْتَمِسُونَ بِذلِكَ الْبَرَكَةَ، وَحَقيقٌ عَلَيَّ أَنْ آتيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ، حَتَّى أُخَلِّصَهُمْ مِنْ أَهْوالِ السَّاعَةِ مِنْ ذُنُوبِهِمْ، وَيُسْكِنَهُمُ اللّهُ الْجَنَّةَ؛[13] میرے لال وہ میری امت میں سے ہیں جو آپ کی زیارت کو آئیں گے ، اور رحمت طلب کریں گے، میری بھی ذمہ داری ہے کہ میں قیامت کے دن ان سے ملنے جاوں اور انہیں گناہوں سے نجات دلاوں ، پروردگار بھی انہیں جنت میں مقام عنایت کرے گا [14] ۔

آداب زیارت اربعین سے آشنائی کی ضرورت اور اہمیت

اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ ہر معنوی چیز انسان کی حیات میں تعمیری کردار ادا کرتی ہے ، کوئی بھی صحیح ایمان اور اعتقاد ایسا نہیں ہے جس کا اچھے معاشرے کی تعمیر میں کردار نہ ہو[15] ۔

جو لوگ ایمان ، اخلاق ، مذھبی امور اور وحدانیت کو مادیات سے الگ کرتے ہیں در حقیقت انہوں نے نہ ہی معنویات کو بخوبی پہچانا اور نہ ہی مادیات کو [16]، جب معنوی اور روحانی اعتقادات انسان کے روح میں اس طرح سرایت کرجائیں کہ اس کے آثار انسان کے وجود سے ظاھر ہونے لگیں تو ان عقائد کے مثبت آثار معاشرے کی کسی بھی فرد سے پنہاں نہ رہ سکیں گے [17] ۔

اس بیچ آداب زيارت سے آشنايى اس حقیقت کواجاگر کرتی ہے کہ ائمۀ معصومین(علیهم السلام) کی کرامتیں اور آپ کے معجزات نیز لاتعداد مادی اور معنوی برکتیں جو آپ کی جانب سے زائرین کو نصیب ہوتی ہیں اور زائرین کی بخشش کا سامان فراہم کرتی ہیں وہ پروردگار عالم ، خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں دعا ، راز و نیاز ، بندگی ، خشوع و خضوع کے اسباب مہیا کرتی ہے ۔ [18]

یہ وہ باتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آداب زیارت اربعین کی شناخت انسان کی تربیت پر کس قدر اثر انداز ہے [19]، اس مقام پر اگر یہ کہا جائے کہ زیارت اربعین انسان کی اعلی تربیت کا وسیلہ ہے تو غلط نہ ہوگا ، اس حوالے سے زیارت اربعین زائر کی معنوی ترقی اور نفس کو اعلی مدارج طے کرنے کا باعث ہونا چاہئے ، یعنی زیارت اربعین کے بعد زائرین کو معنویت و کمالات کا مرقع ہونے چاہئیں ۔ [20]

لہذا ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ زیارت اربعین کے آداب و اعمال کی مکمل مراعات کریں ،  زیارت کے وقت ہماری وہ کیفیت ہو جو زندگی میں کبھی نہ رہی ہو ، زیارت دن بہ دن ہمیں خدا سے قریب کرنے کا باعث بننی چاہئے [21] ۔

سفر زیارت کے آداب و احکام

اس حوالے سے کہ معمولا زیارت اور سفر ایک دوسرے کا لازمہ ہیں ، زائرین ھرگز آداب سفر اور اس کے مقدمات سے غافل نہ ہوں [22] ۔

سفر زیارت  میں دعا اور صدقہ دینا

بعض روایتوں [23] میں آیا ہے کہ سفر کے لئے ھفتہ کے بعض دنوں کا انتخاب بہتر ہے ، مگر پھر بھی اگر انسان صدقہ دے کر [24] اپنے سفرکا آغاز کرے تو انشاء اللہ ہر قسم کی بلا و مصیبت سے محفوظ رہے گا ۔ [25]

لہذا انسان سفر سے پہلے صدقہ دے ، امام باقر عليه السلام سے منقول ہے کہ « امام سجّاد عليه السلام  جب بھی اپنے قدم رکاب میں رکھتے تو اپنی بساط کے بقدر صدقہ ادا دیتے ، خدا عزّوجل سے سلامتی کی درخواست کرتے ، اور سفر سے واپسی پر بھی شکرانہ کے طور پر اپنی طاقت کے بقدر صدقہ دے کر خدا کا شکرانہ بجالاتے ۔ [26] نیز دیگر روایت میں آیا ہے کہ صدقہ دو اور جس دن بھی چاہو گھر سے باہر جاو [27]، اور اگر دل میں کسی قسم کا برا خیال آئے تو جو اولین مسکین ملے اسے صدقہ دے دو اور اس کے بعد گھر سے نکلو کہ خطرات تم سے دور رہیں گے ۔ [28]،[29]

نماز اور دعائے سفر پڑھو

انسان بدون شک امید کے ساتھ سفر کرے اور فال بد سے پرھیز کرے کیوں کہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ تم جو فال بد نکالو گے وہی تمھارے ساتھ پیش آئے گا ، اگر سفر کو آسان سمجھوگے تو سفر بھی آسان ہوگا اور اگر سفر کو دشوار سمجھو گے تو سفر بھی دشوار ہوگا ، اور ان باتوں پر دھیان نہ دوگے تو سفر مشکلات سے دور ہوگا ۔ [30]  

بہتر ہے کہ سفر سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرو اور تمام امور کو خدا کے حوالے کرتے ہوئے خدا سے یہ دعا کرو کہ :«اللَّهُمَّ إِنّي أَسْتَوْدِعُكَ نَفْسي ، وَ أَهْلي ، وَ مالي ، وَ ذُرِّيَّتي ، وَ دُنْياي وَآخِرَتي ، وَ أَمانَتي ، وَ خاتِمَةَ عَمَلي ؛ خدایا میں نے خود کو ، اپنے خانوادے کو ، اپنے مال و دولت کو ، اپنے بچوں کو ، اپنی دنیا و آخرت کو ، اولیاء کو اور اپنے سرانجام کو تیرے حوالے کیا » ۔ [32] معتبر سند سے منقول ہے کہ وہ نماز اور یہ دعا اس کے گھرانے پر بہترین جانشین ہے ، اس نے جو دعا مانگی ہے یقینا وہ قبول ہوگی ۔[33]،[34]

سفر میں آیات و سوروں کی تلاوت

گھر سے نکلنے کے بعد گھر کے دروازے پر اس جانب رخ کرکے جس جانب اپنے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہو کھڑے ہوکر سورہ حمد ، آيةالكرسى ، فلق ، ناس اور اخلاص میں سے کسی ایک کی اپنے آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں تلاوت کرے اور پھر یہ کہے :«اللَّهُمَّ احْفَظْني ، وَ احْفَظْ ما مَعِىَ، وَ سَلِّمْني ، وَ سَلِّمْ ما مَعِىَ، وَ بَلِّغْني ، وَبَلِّغْ ما مَعِىَ بِبَلاغِكَ الْحَسَنِ الْجَميلِ؛ خدایا ہمیں اور جو میرے ساتھ ہے اس کی حفاظت فرما اور مجھے جو کچھ میرے ساتھ اسے محفوظ رکھ اور صحیح و سالم اپنے مقصد تک پہونچا » ۔[35] ، جو بھی ایسا کرے گا خداوند متعال اسے اور جو کچھ بھی اس کے ساتھ اس کی حفاظت کرے گا اور اسے اس کی منزل تک پہونچائے گا ۔ [36]،[37]

سفر میں خاک شفا رکھنا

بہتر ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا زائر سفر میں خاک شفا رکھے اور کہے «اللهُمَّ إِنَّ هذِهِ طينَةُ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلامُ...؛ الھی یہ قبر امام حسين عليه السلام کی پاک مٹی ہے ...» کہ اگر ایسا کرے تو اس عمل کی برکت سے خدا کے حفظ و امان میں رہے گا  ۔[38]،[39]

سفر کے وقت امام سجاد (علیه السلام) اور امام جعفر صادق (علیه السلام) کی دعا

حضرت صادق عليه السلام سے منقول ہے کہ آپ آغاز سفر پر یہ پڑھتے :«اللَّهُمَّ خَلِّ سَبيلَنا، وَ أَحْسِنْ تَسْييرَنا، وَ أَحْسِنْ عافِيَتَنا؛[40] خدایا میرا راستہ کھول دے اور میری راہ و میرے سرانجام کو نیک قرار دے » ۔ [41]

حضرت امام زين العابدين عليه السلام سے روایت ہے کہ آپ نے سفر کے ابتداء میں فرمایا : بِسْمِ اللَّهِ وَبِاللَّهِ، وَمِنَ اللَّهِ وَالَى اللَّهِ، وَفى سَبِيلِ اللَّهِ... ؛[42] خدا کے نام سے ، خدا کی مدد سے ، خدا کی جانب سے ، خدا کی طرف اور خدا کی راہ میں...»[43]

مرکب یا سواری پر سوار ہوتے وقت کی دعا

زائرین جب اپنی سواری پر سوار ہونے لگیں تو یہ پڑھیں «سُبْحانَ الّذي سَخَّرَ لَنا هذا وَ ما كُنَّا لَهْ مُقْرِنينَ؛[44] پاك و منزّه ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں کو ہمارے اختیار میں قرار دیا وگرنہ مجھ میں اس کی تسخیر کی طاقت نہ تھی ۔ [45] کہ اگر ایسا کیا تو خود اور اس کی سواری بھی محفوظ رہے گی یہاں تک کہ وہ سواری سے اتر جائے ۔ [46]،[47]

سفر میں خطروں سے محفوظ رہنے کے لئے کون سی دعا پڑھیں ؟

ضروری ہے کہ جب خطرات کا احساس کریں تو اس آیت کی تلاوت کریں :«رَبِّ أَدْخِلْني مُدْخَلَ صِدْقٍ، وَ أَخْرِجْنى مُخْرَجَ صِدْقٍ، وَاجْعَلْ لي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطاناً نَصيراً؛[48] پروردگارا مجھے هر كام میں  صداقت کے ساتھ داخل کر اور صداقت کے ساتھ خارج فرما اور اپنی جانب سے کوئی یار و یاور قرار دے » ۔[49]،[50]  

سفر میں ضرورت مندوں کی مدد کرنا

بہتر ہے کہ زائرین اپنے دوست و احباب کی مدد کریں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں ، ان کے حق میں متواضع ، دوست اور مہربان رہیں ، رسول اسلام صلى الله عليه و آله سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: «مَا اصْطَحَبَ إِثْنانِ إِلَّا كانَ أَعْظَمُهُما أَجْراً وَ أَحَبَّهُما إِلَى اللَّهِ أَرْفَقَهُما لِصاحِبِهِ؛ جب بھی دو لوگ ہم سفر ہوں تو جو سب سے زیادہ اپنے ہم سفر سے محبت و شفقت سے پیش آئے گا ، اپنے ہم سفر کی مدد کرے گا وہ خدا کے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور اسی اچھی جزاء ملے گی ۔ [51]،[52]

 

سفر میں نماز کی ادائیگی

زائرین سفر میں اپنی نمازوں پر خصوصی توجہ کریں ، کیوں کہ زائر ایک طرف زیارت کے ذریعہ خود کو خدا سے قریب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری جانب نمازوں کو ترک کرکے خدا کی ناراضگی کے اسباب فراہم کررہا ہے ، جبکہ امام صادق عليه السلام نے فرمایا ہے کہ « واجب نماز ۲۰ مستحبّ حجّ سے بهتر ہے » ۔[53]،[54]

سفر میں تسبیحات اربعہ

قابل ذکر ہے کہ قصر نمازوں کے بعد اگر زائرین کے پاس وقت ہو تو تیس مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھیں کہ جس کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔ [55]،[56]

زائرین اربعین امام حسین علیہ السلام اور سفر میں احتیاط کی مراعات

اس مقام پر یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر چہ جان و مال و اولاد و خانودے کے لئے دعا ، صدقہ وغیرہ کی تاکید ہے مگر اس کا ھرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم احتیاط سے دست بردار ہوجائیں اور اپنے مال و اسباب کی حفاظت نہ کریں ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی توانائی بھر اپنے مال و اسباب کی حفاظت کرے اور بقیہ خدا کے حوالے کردے کیوں کہ روایت میں موجود ہے کہ لاابالی انسان کی دعا مستجاب نہیں ہے ۔ [57]

لہذا ھرگز خطرناک راستوں پر قدم نہ رکھے خصوصا ڈرائیوینگ ان مقامات پر جہاں سیکوریٹی کی تاکید ہے کہ ھرگز فراموش نہ ہو ، تیز گاڑیاں چلانے سے پرھیز کرے ، احتیاط کے ساتھ اگے بڑھے اور زیارت اربعین میں اپنی ضرورت کی تمام ضروری چیزوں کو لے کر چلے ۔  [58]

حرف آخر

آخر میں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ زائرین اربعین پيغمبر اکرم صلى الله عليه و آله کی اس روایت کے شامل حال ہیں کہ آپ نے فرمایا : [59] «انَّ لِرَبِّكُمْ فى ايَّامِ دَهْرِكُمْ نَفَحاتٌ الا فَتَعَرَّضُوا لَها؛ تمھاری حیات میں تمھارے من موافق باد نسیم چلتی ہیں تم خود کو ان کے درمیان قرار دو » [60]،[61] اور ایک دوسری حدیث میں «فَتَعَرَّضُوا لَها» کے بجائے «فَتَرَصَّدُوا لَها»[62] کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی ان لمحات کی کمین میں رہو ، ھرگز اسے ہاتھ سے نہ جانے دو اور اس بہترین طریقے سے استفادہ کرو ۔ [63]

اب جب کہ اربعین امام حسین علیہ السلام کے عاشقین نسیم رحمت الھی کی زد میں ہیں ، بہتر ہے کہ آداب و اعمال زیارت اربعین امام حسین (علیه السلام) سے زیادہ سے زیادہ آشنائی حاصل کرکے اس موقع سے خوب استفادہ کریں تاکہ بعد میں کف افسوس نہ ملیں ۔ [64]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے:

[1] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج 15 ؛ ص101.

 

[2] كليات مفاتيح نوين ؛ ص609.

 

[3] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج 1 ؛ ص502.

 

[4] وہی ؛ ج 15 ؛ ص101.

 

[5] عاشورا ، بنیادیں ، جزبات ، حقائق و نتائج ؛ ص637.

 

[6] وہی ؛ ص635.

 

[7] غدیر عالمی فاونڈیشن کے اراکین کی حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی سے ملاقات کے بیان سے اقتباس ؛6/6/1396.

 

[8] بحارالانوار؛ ج 97؛ ص 116؛ ح 1 ، عيون اخبارالرضا؛ ج 2؛ ص 260؛ ح 24.

 

[9] كليات مفاتيح نوين ؛ ص209.

 

[10] وہی ؛ ص209.

 

[11]  بحارالانوار؛ ج 97؛ ص 119؛ ح 18 كامل الزيارات سے منقول ؛ ص 160؛ ح 14؛ باب 65.

 

[12] كليات مفاتيح نوين؛ ص 210.

 

[13]  بحارالانوار؛ ج 97؛ ص 118؛ ح 11 كامل الزيارات سے منقول ؛ ص 58؛ح 6؛ ب 16.

 

[14] كليات مفاتيح نوين، ص: 210.

 

[15] تفسير نمونه ؛ ج 9 ؛ ص132.

 

[16] وہی ؛ ص 133.

 

[17] وہی.

 

[18] كليات مفاتيح نوين ؛ ص209.

 

[19] وہی.

 

[20] حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی کی مسجد اعظم قم میں درس خارج فقه میں تقریر ؛ ؛26/8/1395.

 

[21] كليات مفاتيح نوين ؛ ص27.

 

[22] ر.ک: بحارالانوار؛ ج 97،  كتاب المزار؛ص 101 به بعد ،  وسائل الشيعه؛ ج 8؛ ابواب آداب سفر از كتاب الحجّ؛ ص 248 به بعد.

 

[23] ر.ک: كافى؛ ج 8؛ ص 143؛ ح 109 ؛ ص 275؛ ح 416 ، خصال صدوق؛ ج 2؛ ص 385؛ ح 67 ؛ ص 386؛ ح 69 ؛ ص 388؛ ح 78 ؛ ص 393؛ ح 95 ؛ بحارالانوار؛ج 56؛ ص 35 ؛ ج 97؛ ص 102 ، فقيه؛ ج 1؛ ص 424؛ ح 1252 ، ج 2؛ ص 266 و 267.

 

[24]  كافى؛ ج 4؛ ص 283؛ ح 4.

 

[25] كليات مفاتيح نوين ؛ ص211.

 

[26]  فقيه؛ ج 2؛ ص 270؛ ح 2408 ، وسائل الشيعه؛ ج 8؛ ب 15 از ابواب سفر؛ ح 5.

 

[27]  كافى؛ ج 4؛ ص 283؛ ح 4 ، وسائل الشيعه؛ ج 8؛ ب 15 از ابواب سفر؛ ح 1.

 

[28]  محاسن؛ ج 2؛ ص 349؛ح 26 ، وسائل الشيعه؛ ج 8؛ ب 15 از ابواب سفر؛ ح 3.

 

[29] كليات مفاتيح نوين ؛ ص212.

 

[30]  كافى؛ ج 8؛ ص 197 و 198؛ ح 235 و 236 ، وسائل الشيعه؛ ج 8؛ب 8 از ابواب سفر؛ ح 2 و 3.

 

[31] ر.ک: وسائل الشيعه؛ ج 11؛ ب 15 از ابواب سفر.

 

[32] كليات مفاتيح نوين ؛ ص212.

 

[33] كافى؛ ج 4؛ ص 283؛ح 1 ، وسائل الشيعه؛ ج 8؛ ب 18 از ابواب سفر؛ ح 1.

 

[34] كليات مفاتيح نوين ؛ ص212.

 

[35] وہی.

 

[36] كافى؛ ج 2؛ ص 543؛ ح 11 ، وسائل الشيعه؛ ج 8؛ ب 19 از ابواب سفر؛ ح 1.

 

[37] كليات مفاتيح نوين؛ ص 213.

 

[38] كامل الزيارات؛ ص 283؛ ح 10؛ ب 93.

 

[39] كليات مفاتيح نوين ؛ ص212.

 

[40]  كافى؛ ج 4؛ ص 287؛ ح 1.

 

[41] كليات مفاتيح نوين ؛ ص213.

 

[42] بحارالانوار؛ ج 73؛ ص 258؛ح 52.

 

[43] كليات مفاتيح نوين ؛ ص213.

 

[44]  سوره زخرف؛ آيه 13.

 

[45] كليات مفاتيح نوين ؛ ص214.

 

[46] ر.ک:  كافى؛ ج 6؛ ص 540؛ ح 17.

 

[47] كليات مفاتيح نوين ؛ ص214.

 

[48]سوره اسراء؛ آیۀ80.

 

[49] محاسن؛ ج 2؛ ص 367؛  ح 118.

 

[50] كليات مفاتيح نوين ؛ ص214.

 

[51]  فقيه؛ ج 2؛ ص 278؛ ح 2437 ، وسائل الشيعه؛ج 8؛ ب 31 از ابواب سفر؛ح 2.

 

[52] كليات مفاتيح نوين؛ ص 215.

 

[53]  كافى؛ ج 3؛ ص 265؛ ح 7.

 

[54] كليات مفاتيح نوين ؛ ص215.

 

[55]  تهذيب؛ ج 3؛ص 230؛ح 103.

 

[56] كليات مفاتيح نوين ؛ ص215.

 

[57] وہی.

 

[58] وہی.

 

[59] زائرین قم و جمكران کے همراه ؛ ص14.

 

[60]  بحارالانوار؛ ج 71؛ ص 221.

 

[61] زائرین قم و جمكران کے همراه ؛ ص14.

 

[62] بحارالانوار؛ ج 77؛ ص 166.

 

[63] زائرین قم و جمكران کے همراه ؛ ص14.

 

[64] وہی ؛ ص15.

/۹۸۸/ ن۹۱۱

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬