رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بدھ کے روز فلسطینی عوام سے یکجہتی کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ سات عشروں کے دوران فلسطین کی تاریخ نے اس بات کی بخوبی نشاندہی کی ہے کہ صیہونیوں کی جارحیت کولگام دینے مقبوضہ علاقوں کو آزاد اور فلسطینیوں کی وطن واپسی نیز غاصب دشمن کی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ جائز و قانونی دفاع اور استقامت ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں بحران کا واحد حل فلسطینی قوم کے عزم و ارادے کو عملی جامہ پہنانا ہے اور مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل تمام فلسطینیوں کی شمولیت سے ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کے مستقبل کا تعین ایک ایسا قانونی و انسانی اور منصفانہ نیز تسلیم شدہ بین الاقوامی اصول ہے جو خاص طور سے اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ ایران کی عظیم قوم نے فلسطین کے نشیب و فراز سے دوچار تمام ادوار میں ہمیشہ فلسطینی قوم سے اپنی یکجہتی پر تاکید کی ہے اور اس نے فلسطین کے مظلوم عوام کی امنگوں کی حمایت سے کبھی ہاتھ نہیں کھینچا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ انتیس نومبر کی تاریخ، ہر سال تقسیم فلسطین کی قرارداد جاری کئے جانےجیسے تلخ واقعات کی یاد تازہ کرنے اور ساتھ ہی فلسطینی قوم سے اظہار یکجہتی نیز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک مبصر ملک کی حیثیت سے فلسطین کے انتخاب کی تاریخ شمار ہوتی ہے۔
ایران کی مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ مغرب نے مسلمانوں پر تسلط کو اپنا نصب العین بنایا اور حالیہ عشروں کے دوران اسلامی تعلیمات کا مقابلہ کرنے کے لئے مغربی افکار کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں نے جنم لیا اور مغربی مہم پسندی کا رویہ اس بات کا باعث بنا کہ اقوام عالم کی نظر میں مغرب، نفرت کا مرکز بنتا چلا جائے -
ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بدھ کے روز پالیمنٹ کے کھلے اجلاس میں کہا کہ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید پرستی اور مسلمانوں میں اتحاد کو اپنا نصب العین بنایا اور آپ مومنوں کو اغیار کے مقابلے میں متحدہ طاقت قرار دیتے رہے۔
ڈاکٹر لاریجانی نے عید میلادالنبی اور ہفتہ وحدت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان انسانیت کے لئے پیش کردہ اسلامی اصول اور آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے تو آج مسلمانوں کی یہ صورت حال نہ ہوتی کہ وہ ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے کے باوجود بڑی طاقتوں کے مقابلے میں سرتسلیم خم کرنے پر محبور ہوجائیں۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰