رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی شھر كاشان سے رپورٹ کے مطابق، مجمع علمائے کاشان کے سیکریٹری حجت الاسلام علي رضا شاه فضل نے گذشتہ شب مسجد امام خميني(ره) کاشان میں اپنی سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں سوره مباركه توبه کی ۴۹ ویں آیت ‹‹ وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ تَفْتِنِّي ۔ ترجمہ : بیشک انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ کی کوشش کی تھی اور تمہارے امور کو الٹ پلٹ دینا چاہا تھا یہاں تک کہ حق آگیا اور امر خدا واضح ہوگیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کررہے تھے ›› کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : خداوند متعال نے اس آیت میں اُس منافق کی جانب اشارہ کیا ہے جو جنگ میں نہ جانے کے لئے مستقل بہانہ بازی کررہا تھا ۔
انہوں ںے مزید کہا: خداوند متعال اس آیت نے فرماتا ہے ‹‹وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي ۔ ترجمہ : بیشک انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ کی کوشش کی تھی اور تمہارے امور کو الٹ پلٹ دینا چاہا تھا›› بعض نے پیغمبر سے کہا کہ ہمیں جنگ میں شرکت کرنے سے معاف رکھئے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ ‹‹وَلَا تَفْتِنِّي›› انہیں جنگ میں اس بات کا خوف اور ڈر ہے کہ وہ سپاہ روم کی خوبصورت عورتوں کے مقابل خود کو کنٹرول نہ کرپائیں اور گناہ کا ارتکاب کر بیٹھیں ۔
حجت الاسلام شاه فضل نے کہا: خداوند متعال نے ان افراد کے جواب میں کہا ‹‹أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا›› یہ لوگ ایسے فتنہ سے خوفزدہ ہیں جس کا پہلے ہی شکار ہوچکے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب کر چکے ہیں ، ‹‹وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ›› انہیں بنیاد پر جہنم کا کفار کا مسکن ہوگی ۔
انہوں نے مزید کہا : اگر انسان کوئی عمل انجام نہیں دینا چاہتا تو اسے بے خوف ہوکر اور صاف و شفاف طور سے کہنا چاہئے کہ ہم جان کے خوف سے جنگ میں نہیں جا سکتے، جنگ میں شرکت نہ کرنے کے لئے بہانہ تراشی سے انسان دو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ، ایک شرکت نہ کرنے کا گناہ اور دوسرے جھوٹ بولنے کا گناہ ۔
مجمع علمائے کاشان کے سیکریٹری نے کہا: خداوند متعال ان افراد کو خود ان کے جھوٹ میں گرفتار کردیتا ہے کیوں کہ خدا اور پیغمبر انسانوں کے دل کی باتوں سے آگاہ ہیں ، لہذا ارشاد ہوا کہ بہانہ بازی نہ کرو ، ریا اور نفاق سے پرھیز کرو تاکہ نفاق کی سزا میں گرفتار نہ ہو ۔
حجت الاسلام شاه فضل نے کہا: رسول اسلام (ص) کے اطراف میں موجود لوگ مختلف بہانے سے جنگ سے گریزاں تھے ، یہ وہ افراد ہیں کہ جنہوں ھرگز اميرالمومنین علی(ع) کا دفاع نہیں کیا اور دفاع نہ کرنے کے سلسلے میں ہزاروں بہانے لاتے رہے ۔
انہوں نے مزید کہا: خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ ‹‹وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ؛ جنہم کفار کو گھیرے ہوئے ہے ›› مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ جہنم ہم سے بہت زیادہ قریب ہے جیسے جہنم نے ابھی کفاروں کا احاطہ کر رکھا ہو اور کفار جہنم میں ہوں کیوں کہ خدا کی نگاہ میں وقت و زمان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
مجمع علمائے کاشان کے سیکریٹری نے کہا: ہم آج گناہیں کریں اور ھزاروں سال بعد اس کی سزا میں جہنم میں جائیں گے یا اس کے برخلاف اگر آج اچھے کام انجام دیں اور ھزاورں سال بعد بہشت میں جائیں گے مگر خدا کے نزدیک ان فاصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس کے لئے وقت کا فاصلہ بے معنی ہے ۔
انہوں ںے کہا: انسان مختلف بہانے کار خیر انجام دینے سے گریز کرتا ہے اور مختلف بہانے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے ھزار سال بعد جہنم میں جانے کا تصور ایک انسانی تصور ہے مگر سچ یہ ہے کہ گناہ گار انسان جہنم میں اور جہنم کفار کو اپنے گھیرے میں لے ہوئے ہے کیوں کہ حاسد انسان اپنے حسد کی آگ میں جلتا ہے اور متکبر انسان اپنے تکبر کی آگ میں ، اگر گناہگار انسانوں کی زندگی سے پردہ اٹھا دیا جائے تو وہ اپنی انکھوں سے دیکھیں گے کہ وہ کس طرح جہنمی حیات بسر کررہے ہیں ۔
حجت الاسلام شاه فضل نے یاد دہانی کی: نیک انسانوں کے لئے بھی ضروری نہیں کے وہ قیامت تک بہشت میں جانے کا انتظار کریں بلکہ جس لمحہ وہ کار خیر انجام دیتے ہیں انہیں اسی لمحہ اپنے نیک اعمال کی لذت محسوس ہوتی ہے ، یہ لمحات نیک عمل انسان کے بہشت میں جانے کے لمحات ہیں کہ جسے آخرت میں بھی بہشت نصیب ہوگی ، اگر انسان کو اس بات پر ایمان ہوجائے کہ نیک عمل بہشت کے معنی میں اور برے اعمال جہنم کے معنی میں ہے تو ھرگز برے اعمال انجام نہ دے گا ۔
انہوں نے کہا: خداوند متعال نے سورہ توبہ کی 50 ویں آیت میں منافقین کی دیگر نشانیوں کی جانب اشارہ اور کرتے ہوئے کہا کہ ‹‹إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ›› جب مسلمان کو کوئی کامیابی ملتی ہے تو وہ غم زدہ ہوتا اور ‹‹وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ›› جب مسلمان کو ناکامی ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے ‹‹يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ›› جنگ میں شرکت نہ کرنا اور ‹‹وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ›› مسلمانوں کی ناکامی پر خوشی تمام کا منافقین کی نشانیاں ہیں ۔
مجمع علمائے کاشان کے سیکریٹری نے کہا: مومنین کی شکست ، منافقین کی دلی تمنا ہے ، عصر حاضر میں بھی جب مدافعان حرم شام اور عراق میں شکست کھاتے ہیں تو بعض افراد کو خوشی ہوتی ہیں اور اگر سپاہ اسلام کو شام اور عراق میں یا جمھوری اسلامی ایران کو کوئی کامیابی نصیب ہوتی ہے تو بعض افراد کو تکلیف ہوتی ہے کہ یہ منافق ہونے کی نشانی ہے ۔
انہوں نے بیان کیا: علمائے اخلاق معتقد ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک قسم کا نفاق موجود ہے اور روایتوں میں آیا ہے کہ نفاق کی شناخت تاریک رات میں کالے پتھر پر کالی چیونٹی کی چال کے مانند ہے ، نفاق نہایت ہی چھپی ہوئی اور پوشیدہ چیز ہے یہاں تک کہ اکثر انسان اپنے اندر چھپی ہوئے نفاق سے بے خبر ہیں ۔
حجت الاسلام شاه فضل نے دوسروں کی کامیابی کے مقابل غم زدہ ہونا اور دوسروں کی شکست کی برابر خوشی نفاق کی بہترین نشانی جانا اور کہا: علمائے اخلاق اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ انسان ہمیشہ اپنی خوشی اور غم پر غور کرے کہ اس خوشی یا تکلیف کی بنیاد کیا ہے ، خدا کے لئے خوش یا غم زدہ ہو رہا ہے یا شیطان کے لئے خوش یا غم زدہ ہو رہا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: خداوند متعال نے واضح طور کہا کہ ‹‹إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ›› اگر مومن کی کامیابی پر خوشی محسوس نہ ہو تو یہ انسان منافق اور شیطان کا شاگرد ہے ۔
مجمع علمائے کاشان کے سیکریٹری نے کہا: اگر انسان اس مرحلہ پر پہونچ جائے کہ اس کی تمام تر خوشیاں اور غم اللہ کی راہ میں اور اس کی رضایت میں ہوں تو یہ انسان ایمان کے بالاترین مرتبہ ہے ، رسول اسلام(ص) فرماتے ہیں کہ انسان کا پورا ایمان اس کا حب و بغض ہے ، خدا کے لئے کسی سے محبت کرنا اور خدا کے لئے کسی سے دشمنی کرنا ایمان کی نشانی ہے ۔/۹۸۸/ ن۹۱۳