تحریر: نذر حافی
کوئٹہ میں چرچ پر حملہ ہوا، یہ حملہ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کی 81ویں سالگرہ کے موقع پر کیا گیا، بحیثیت مسلمان ہم مسیحی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ظالم ہمیشہ رسوا ہوتے ہیں، خدا ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے لیکن چھوٹ نہیں دیتا اور ان سے بڑا ظالم کون ہوگا جو پاکستان کو بدنام اور کمزور کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ اتوار کو کوئٹہ میں زرغون روڈ پر واقع بیتھل میتھوڈسٹ میموریل چرچ میں دعائیہ تقریب کے دوران دوپہر 12 بجے کے قریب چار دہشت گردوں نے چرچ پر حملہ کرکے 9 افراد کو جاں بحق اور 56 افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ ہم غم اور دکھ کے اس موقع پر مسیحی برادری کو تجزیہ و تحلیل اور غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والی مسیحی برادری بھی تحقیق اور جستجو کے ساتھ پاکستان کے حقیقی دشمنوں کو پہچانے۔ یہ مسیحی برادری کے اکابرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ غور و فکر اور تحقیق کے ساتھ قاتلوں کی صحیح نشاندہی کریں اور اُن کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ مسیحی برادری اس غلطی کا ارتکاب نہ کرے، جو پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں سے ہوئی۔ ایک عرصے تک جب پاکستان کے دشمن کہیں پر بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو عوامی حلقے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لیتے تھے تھے کہ یہ تو فرقہ واریت کا مسئلہ ہے۔ اگر ملت پاکستان اس وقت غور و فکر سے کام لیتی اور ظالم کو ظالم کہتی تو ظالموں کو اس قدر مضبوط ہونے کا موقع نہ ملتا۔
ہم یہاں پر اپنے مسیحی بھائیوں کو یہ بھی یاد دلانا چاہیں گے کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات، ایک مخصوص گروہ کی طرف سے تمام ادیان و مسالک کے خلاف ہوتے رہتے ہیں، اس گروہ کے ہاتھوں شیعہ، سنی، عیسائی، یہودی اور ہندو الغرض کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی اس ساری قتل و غارت کی جڑیں عرب بادشاہتوں کے خمیر میں ہیں۔ دراصل ایران میں انقلاب کے آنے کے بعد عرب ریاستیں عوامی بیداری سے ڈر گئیں۔ عرب بادشاہوں نے دنیا بھر میں مذہبی و دینی بنیادوں پر ایک خوفناک جنگ کا آغاز کیا اور عرب بادشاہوں کے ٹکڑوں پر پلنے اور چلنے والے مدارس اور مولویوں نے بھی اس منافرت کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ عرب بادشاہوں کو خطرہ تھا کہ اہلِ تشیع کی طرح اہلِ سنت بھی بیدار ہو کر کہیں بادشاہوں کے خلاف انقلاب برپا نہ کرنے لگ جائیں، چنانچہ دنیا کے اہلِ سنت مسلمانوں کو ابتدا میں اہلِ تشیع سے ٹکرانے کی دانستہ کوشش کی گئی، اس کوشش کے نتیجے میں وقتی طور پر عربوں کی بادشاہتیں تو بچ گئیں لیکن دہشت گردی کی وجہ سے دنیا بھر میں دینِ اسلام کی بہت بدنامی ہوئی اور جہانِ اسلام مزید چالیس سال تک اوباش بادشاہوں کے بوجھ تلے دبا رہا۔
دیر آید درست آید، لوگوں کو حقائق سمجھنے میں دیر ضرور ہوئی، لیکن اب لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ پاکستان میں کہیں پر بھی شیعہ اور سُنّی کا جھگڑا نہیں تھا بلکہ یہ سب بادشاہتوں کو بچانے کا کھیل تھا۔ اس کھیل میں پاکستان کے بے شمار دانشور، صحافی، شعراء اور فوج و پولیس کے اعلٰی افیسران نے جامِ شہادت نوش کیا۔ گذشتہ چار دہائیوں میں بادشاہوں کے نوکر نعرہ تکبیر لگا کر ہماری قیمتی شخصیات کو قتل کرتے رہے، ہمارے ملک میں اقلیتوں پر شب خون مارتے رہے، سکولوں اور کالجوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے اور خود عرب بادشاہ حضرات عیاشیاں کرتے رہے۔ آج ان بادشاہوں کی عیاشیوں کا یہ عالم ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے روسی ٹائیکون کی ملکیت 440 فٹ طویل لگژری بحری جہاز جو کہ ایک محل ہے، اسے 45 کروڑ پاؤنڈ میں خریدا، جبکہ لیونارڈو ڈاؤنچی کی ایک معروف پینٹنگ 450 ملین ڈالر میں خریدی، اس کے علاوہ اس وقت دنیا میں سب سے مہنگا اور قیمتی گھر بھی انہی کا ہے، جو انہوں نے 30 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے فرانس میں خریدا ہے۔ اس قیمتی گھر میں 57 ایکڑ رقبے پر محیط ایک پارک بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ اس گھر میں وسیع رقبے کا فش ایکوائریم، سنیما گھر اور زیر زمین نائٹ کلب بھی موجود ہے۔
مجھے ایسے میں وہ مولوی حضرات بہت یاد آرہے ہیں، جو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو بھی ہو جائے آل سعود ہم سے بہتر ہیں آلِ سعود کے نمک خواروں اور وفاداروں کے پاس سب سے آسان اور موثر ہتھیار یہ ہے کہ جو بھی امن، محبت، بیداری، شعور، سوچ و بچار کی بات کرتا ہے، وہ اسے کافر اور واجب القتل قرار دے دیتے ہیں، جیسا کہ ایران کے انقلاب کے ساتھ بھی کیا گیا، اس انقلاب کا قصور یہ تھا کہ اس نے عوام کو بیدار کیا تھا، چنانچہ اس انقلاب کو بھی شیعہ انقلاب کہہ کر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ یہ سچائی اب سب پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان میں قتل و غارت کرنے والے کسی ایک مسلک، اقلیت یا ایران کے دشمن نہیں ہیں بلکہ انہوں نے جس طرح اہلِ تشیع کا خون بہایا ہے، اسی طرح داتا دربار اور بری امام سمیت ہر طرف اہل سنت کے خون سے بھی ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں اور اسی طرح عیسائی حضرات اور دیگر اقلیتوں کے خون کے دھبے بھی ان کے دامن پر ہیں۔ ان کا پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں، پاک فوج اور پاکستان کے عوامی مراکز پر شب خون مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ٹولے اس وقت پوری ملت پاکستان کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔
یہ کس قدر بھیانک حقیقت ہے کہ اگر آپ ان انسان کش ٹولوں پر تحقیق کریں تو آپ ان سب کو میڈ اِن سعودی عرب پائیں گے، وہ طالبان ہوں، القاعدہ ہو، سپاہ صحابہ و داعش و لشکر جھنگوی، سب کو وہیں سے کنٹرول اور فیڈ کیا جاتا ہے۔ ہم اس وقت بحیثیت مسلمان، مسیحی برادری کے دکھ اور غم میں برابر کے شریک ہیں اور واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ بادشاہوں سے ہے اور دہشت گردوں کی تربیت اسلام نہیں بلکہ بادشاہ کرتے ہیں نیز دہشت گردوں کی جنت پاکستان نہیں بلکہ عربستان کے بنائے ہوئے دینی مدارس ہیں۔ یہ حکومت پاکستان کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ کرائے کے قاتلوں کے بجائے ان کے تربیتی دینی مدارس کے خلاف آپریشن کرے۔ ان نام نہاد دینی مراکز کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے جو دہشت گردوں کی تربیت کرتے ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ اس نازک وقت میں ہم سب کو پاکستان کے پرچم تلے متحد ہو کر، تحقیق و جستجو، غور و فکر اور تجزیہ و تحلیل کے ساتھ اس ملک کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ ایک روشن سچائی ہے کہ ہم پاکستانی اس حملے کو صرف ایک چرچ پر حملہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے پورے پاکستان پر حملہ سمجھتے ہیں اور اس حملے سے پورا پاکستان رنجیدہ ہے۔ /۹۸۸/ن۹۴۰