رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شام کے مفتی اعظم «أحمد بدر الدین حسون» نے گذشتہ روز شام کے صوبہ لاذقیہ میں قدس سے ساتھ یکجہتی کا اظہار کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس کے درمیان رپورٹروں کے ساتھ گفت و گو میں بیان کیا : امید کرتا ہوں کہ امریکی صدر ڈونالٹ ٹرمپ لوگوں کی طرف سے دباو کی وجہ سے امریکی سفارت خانہ کو قدس منتقل کرنے کے فیصلے کو واپس لے لے نگے ۔
بدر الدین حسون نے تاکید کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ امریکا صیہونی حکومت کی تشکیل ہونے کے زمانہ سے آج تک اس مسئلہ میں عربی ممالک سے کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : کیوں اس (ٹرمپ) سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کو واپس لے ؟ عربوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے حق کو خود سے واپس حاصل کریں ۔
شام کے مفتی اعظم نے اس تاکید کے ساتھ کہ عربی ممالک کے حقوق صرف مزاحمت کے ذریعہ ہی واپس مل سکتے ہیں بیان کیا : اس وقت شام اس پیغام کا حامل ہے کہ جو آج سے تیس سال پہلے سے تاکید کر رہا تھا اور وہ پیغام یہ تھا کہ صیہونی دشمن کو صرف مزاحمت و ایستادگی سے ختم کیا جا سکتا ہے ۔
بدر الدین حسون نے اس اشارہ کے ساتھ کہ شام کو فلسطین کی وجہ سے سزا دی گئی بیان کیا : صیہونی حکومت ۸۰ کے عشرہ سے سال ۲۰۱۰ تک اس کوشش میں تھا کہ شام اور مزاحمت فرنٹ کو ختم کر دے ، لیکن آج شام نے مزاحمت فرنٹ ایجاد کر کے سات سال تک کی طولانی جنگ اس مزاحمت فرنٹ کے ذریعہ اپنی پوری طاقت سے ناجائز صیہیونی حکومت سے مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کی ۔
شام کے مفتی اعظم نے اس تاکید کے ساتھ کہ عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران میں صیہونی ناجائز حکومت کا سفارت خانہ فلسطینی سفارت خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے ، ڈونالڈ ٹرمپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا : میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں ؛ کیوں کہ ثابت کر دیا کہ شام اپنے پیغام میں اور مزاحمت میں صداقت کے ساتھ کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ یم اپنے شہدا کا خون فلسطین کی آزادی کے راہ میں جانتے ہیں ۔
بدر الدین حسون نے آخر میں بیان کیا کہ شام دنیا کے تمام لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ہم لوگ « جدا نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ ایک دوسرے کی طرف لوٹ آئے ہیں ، کیوں کہ شام میں مذہبی و قبیلہ ای گروہ کا وجود نہیں ہے » جو چیز ہے وہ امت واحدہ ہے ۔/۹۸۹/ف۹۷۳/