17 May 2018 - 16:38
News ID: 435964
فونت
حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی :
آستان قدس رضوی کے محترم متولی نے صہیونیزم غاصب کی کئی بار عہد شکنی کرنے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: فلسطین کا مستقبل میدان جنگ میں استقامت سے لڑنے والے مجاہدوں کے ہاتھوں میں ہے نہ کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر گفتگو اور مذاکرات کرنے والے لوگوں کے ہاتھ میں۔
سید ابراہیم رئیسی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افق نو نامی اجلاس کی اختتامی تقریب صدا و سیما کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی ؛ اس دوران حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا: حق خواہی،عدالت طلبی،توحید اور یکتا پرستی پر توجہ دینا وغیرہ ایسے موضوعات تھے جن پر پیغمبر گرامی اسلام(ص) اور آئمہ اطہار(ع) نے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام نے دوسرے مذاہب اور مکاتب فکر سے گفتگو کے ذریعے ایسا اتحاد قائم کیا جس کا کوئی نمونہ نہیں ملتا، وضاحت دیتے ہوئےکہا: دوسرے مذاہب کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرنے والے حضرت رضا علیہ السلام تھے ،حقیقت میں امام رضا علیہ السلام نے توحیدی ادیان و مذاہب کے درمیان گفتگو کے ذریعے جس چیز کو محقق کیا وہ یکتا پرستوں اور حق و حقیقت اور عدالت کو قائم کرنے والوں کے اتحاد کا مظہر و نمونہ تھا۔

حجت الاسلام رئیسی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں تمدن رضوی سے الہام لیتے ہوئے الحاد کی ضد میں نئے اتحاد کی ضرورت ہے، کہا: الحادی تحریکیں اور سرمایہ داری نظام یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کے تمام حقوق پائمال کئے جائیں من جملہ آزادی، عدالت اور اسی طرح ملتوں کے حقوق کو ضایع کرنا چاہتے ہیں،صہیونیزم حکومت اور جو ان کے حمایتی ہیں چاہتے ہیں کہ تمام ایسے انسانوں کے حقوق کو پائمال کیا جائے جو خدا کے معتقد ہیں۔

مجلس خبرگان رہبری کے رکن نے بتایا: عیسائی، مسلمان، یہودی اور ہر وہ شخص جو حق چاہتا ہے عدالت کو معاشرے میں دیکھنا چاہتا ہے ان سب کی نگاہ میں فلسطین اور قدس شریف کی آزادی کا مسئلہ اہم ترین موضوعات میں سے ہے،اگر اس دور میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون سی تحریک عدالت خواہ ہے تو دیکھنا ہو گا کہ کونسی تحریکیں فلسطین اور قدس شریف کی حمایت کر رہی ہیں، آج مختلف گروہوں کے لئے دنیا میں عدالت خواہی کا معیار و ملاک مسئلہ فلسطین ہے۔

انہوں نے بتایا کہ غزہ میں ابتدائی ترین سہولیات بھی میسر نہیں ہیں ، گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا؛ ۷۰ سال پہلے سے غاصب صہیونیزم حکومت نے فلسطین کی مظلوم عوام پر ظلم و ستم اور تجاوز کرنا شروع کیا اور اس وقت ۵ میلین فلسطینیوں کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ۷۱ فیصد فلسطین کو غاصب صہیونیزم حکومت نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔

مستکبروں کی وعدہ خلافیاں

حجت الاسلام رئیسی نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کی خلاف ورزی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اسرائیل نے اسلو معاہدہ کی بنیاد پر شہروں کی تعمیرات کوجاری رکھا،لیکن فلسطینوں کے حقوق ہرگز ادا نہ کئے گئے،اسلوہ معاہد،دیوید کیمپ وغیرہ پر صہیونیزم حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔

عربی ممالک کے ساتھ اسرائیلی روابط کو معمول کے مطابق رکھنے کا مقصد امریکی سفارت کو منتقل کرنا تھا

وضاحت دیتے ہوئے فرمایا: امریکی صدر کا سفارت کو قدس شریف میں منتقل کرنے  کا مقصد یہ ہے کہ عربی ممالک کے روابط کو اسرائیل کے ساتھ معمول کے مطابق قائم رکھ سکے۔

آستان قدس رضوی کے محترم متولی کا کہنا تھا کہ سو سال پہلے سے آل سعود نے حرمین شریفین کی مقدس سرزمین پر فتنہ بپا کیا اور آض بن سلمان استکباری سیاست کو خطے میں لاگو کرنے کے چکر میں ہے، گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل کے توسط سے اورآل سعود کے پیسوں سے القاعدہ اور داعش جیسے دہشتگرد گروہوں کا وجود میں لانا اور خطے میں قتل عام کا مقصد یہ تھا کہ عوامی افکار کو قدس شریف جیسے اہم مسئلہ سے منحرف کیا جا سکے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ فلسطین جیسے اہم مسئلہ ذہنوں کو منحرف کرکے اسلامی جمہوری ایران کی جانب کر دے ،وہ چاہتے ہیں فلسطین بی پناہ افراد کو پناہ دیں تا یہ مسئلہ ان کے لئے کوئی مشکل نہ کھڑی کر دے۔ استکبار یہ چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کے لئے صحرا سینا کو صحرای باختری کے ساتھ تبدیل کر دے، تاکہ انہیں مقبوضہ فلسطین سے دور رکھا جا سکے، مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: فلسطین کا مستقبل میدان جنگ میں استقامت سے لڑنے والے مجاہدوں کے ہاتھ میں ہے نہ کہ ان افراد کے ہاتھ میں جو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مذاکرات اور گفتگو سے مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اب تک مذاکرات کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا،حزب اللہ لبنان کی شجاعت اور بہادری کامیابی اور فتح کا راز ہے اور اسی طرح یمن کی مظلوم عوام کی آل سعود کے مدّ مقابل استقامت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین رئیسی کا کہنا تھا کہ استکبار کئی سالوں سے اس کوشش میں ہے کہ قدس شریف کے مسئلہ کو بی اہمیت کر دے،لیکن اب تک کامیاب نہیں ہو سکا اور اس کے بعد بھی کامیاب نہ ہو پائے گا، انہوں نے بتایا: امریکی سفارت کو قدس شریف میں منتقل کرنا کسی دوسری ملت کی سرزمین پر تجاوز کرنے کا واضح ترین نمونہ ہے جس ملت نے ۷۰ سال سے ظلم وستم کو برداشت کیا،سفارت کو قدس شریف منتقل کرنے پر امریکہ کی شکست یقینی ہو گئی ہے،امت مسلمہ کی غیرت ایسے عظیم ظلم کی اجازت نہیں دے گی اور فلسطین کی با غیرت قوم پہلے سے زیادہ مضبوط ارادوں کے ساتھ مبارزہ کرے گی۔

اقوام متحدہ میں بی عدالتی اپنے عروج پر ہے

وضاحت دیتے ہوئے کہا: بہت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کا ڈھانچہ بہت ہی ظالمانہ تھا بی عدالتی اقوام متحدہ میں اپنے عروج پر ہے ،کہاں گئی ہیں بین الاقوامی حقوق بشر کی دعویدار تنظیمیں؛ جنہوں نے بین الاقوامی معاہدوں کو توڑنے پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ آج ہر کسی سے پہلے اقوام متحدہ کو چاہئے تھا کہ امریکہ صہیونیزم حکومت کے تجاوزات پر فریاد کرتے کہ کیوں ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟

مجلس خبرگان رہبری کے اعلیٰ رکن نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خطے میں آج جس چیز کو دیکھ رہے ہیں وہ لوگوں کا اللہ پر ایمان اور پختہ ارادہ ہے جس سے وہ اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے استقامت کر رہے ہیں ، وضاحت دیتے ہوئے کہا: ہم اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کا ڈھانچہ نابودی کی طرف جا رہا ہے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امریکیوں نے غلطی دہرائی ہے ، شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنی گذشتہ شکست کو اس راہ و روش سے جبران کر سکیں، لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ آج ارادوں کی جنگ ہیں۔

مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: جوجیز خطے میں حکمفرمائی کرے گی وہ قوم و ملت کا ارادہ ہے ۔

حجت الاسلام والمسلمین رئیسی نے روز نکبت(منحوس دن) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : دیکھ رہے ہیں کہ ظالم اور قابض حکومتیں ظلم کر رہی ہیں اور لوگ اس ظلم کو سہہ رہے ہیں، نکبت وہ دن ہے جس دن امریکیوں اور صہیونیزم حکومت نے بہت بڑا ظلم کیا اور دنیا کے کئی ممالک اس ظلم پر خاموش رہے۔

جدید الحاد کے خلاف متحدہ محاذ کا قیام

گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: آج پوری دنیا کے عیسائیوں،یہودیوں،اہل تشیع، اہلسنت اور دیگر ادیان الہی و مکاتب فکر کے عدالت خواہان اور حق و حقیقت کے طالب افراد قدس کی پشت پناہی کر رہے ہیں،آج کے دور میں جدید الحاد کے خلاف عالمی سطح پر اتحاد کیا جا رہا ہے،اور ابراہیمی ادیان  و توحیدی ادیان کا آپس میں یہ اتحاد غاصبوں کے خلاف ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین رئیسی نے اس بات پر تاکید فرمائی کہ غاصبوں کا حساب و کتاب موسویان سے اور مستکبروں کا عیسائیوں سے اور اسی طرح سعود کا حساب و کتاب مسلمانوں سے جدا ہونا چاہئے ،آج خود خواہ اور خود پرست ثروت مند و سرمایہ دار افراد پوری دنیا میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں،لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ وہ اپنے اس مقصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے،کیونکہ مزاحمتی تحریکیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے گی۔

انہوں نے کہا کہ آج جو کچھ بھی سیاست کی دنیا میں ہو رہا ہے وہ ایسی سیاست کا نتیجہ ہے جو دین و معنویت سے خالی ہے اور امریکی جس چیز کی تلاش و کوشش کر رہے ہیں وہ اخلاق و دین سےخالی سیاست کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ایٹم بم اور دوسری ملتوں کے حقوق کو پائمال کیا جا رہا ہے۔گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: امام خمینی(رہ) نے اسلام ناب اور ایسی سیاست جو اخلاق و معنویت پر استوار ہے کا پرچم بلند کیا ، اور آج کے ان نائب بر حق امام خامنہ ای کا بھی یہی نعرہ ہے کہ سیاسی تعلقات کی بنیاد دین و روحانیت اور اخلاق ہونا چاہئے،ہماری سیاست کی بنیاد عقلانیت،روحانیت،اخلاق اور عدالت پر استوار ہونی چاہئے ، ایسی سیاست جو ان چیزوں سے خالی ہو وہ ہرگزمفید ثابت نہیں ہو سکتی۔

آستان قدس رضوی کے محترم متولی نے مزید وضاحت دیتے ہوئے فرمایا: اخلاقیات اور روحانیت پر مبنی سیاست کا نتیجہ یہ کہ فلسطینیوں نے ۲۲ دنوں میں غاصب حکومت کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیااور ۳۳ دنوں میں ان غاصبوں کو شکست دی،آج تل ابیب اور اسرائیل کے دوسرے شہر کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ، ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ خطے کی تقدیراستقامتی محاذ کے مجاہد جو خدا کے عاشق ہیں اور اس راستے میں فقط اور فقط خداوند متعال پرتوکل کرتے ہیں ان کے ہاتھوں میں ہے۔

حقوق بشر کے دعویدار؛خود سب سے زیادہ ان حقوق کو نقض کرنے والے ہیں

ریاستی مصلحتوں کو تشخیص دینے والی کونسل کے سربراہ نے بتایا کہ آج حقوق بشر کے مدعی دنیا میں سب سے زیادہ خود ان حقوق کو نقض کر رہے ہیں،اگر یہ فیصلہ کیا جائے کہ اسرائیلیوں،امریکیوں اور انگریزوں کے ظلم وستم کی سزا کو تحریر کیا جائے ، تو ان تمام مظالم کی سزا بہت زیادہ ہے درحقیقت یہ تمام مظالم بشریت کے خلاف ظلم و ستم کے واضح ترین مصداق ہیں۔

مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: آج خطے میں بسنے والے مسلمان شہداء کے بابرکت خون کی وجہ سے بیدار ہو چکے ہیں ، ممکن ہے کہ استکبار اپنے افراد کو ان پر مسلط کرے لیکن بیداری کی لہر کو ہرگز نہیں روک سکتا، بلکہ یہ بیداری روز بروز بڑھتی چلی جائے گی۔

حجت الاسلام والمسلمین رئیسی کا کہنا تھا: بیت المقدس ایسی جگہ ہے جو تمام ابراہیمی اورتوحیدی ادیان کے نزدیک قابل احترام ہے، امریکیوں نے اسرائیلیوں کے تعاون سے اپنی سفارت کو جو منتقل کیا ہے یقیناً ان کی شکست کا باعث بنے گا کیونکہ یہ بہت بڑا ظلم ہے جو فلسطینی عوام اور امت مسلمہ پر کیا گیا ہے۔

مجلس خبرگان رہبری کے اعلیٰ رکن نے فلسطین اور قدس شریف کا مسئلہ ہمیشہ سے عالم اسلام کا بنیادی ترین مسئلہ رہا ہےاور اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب کے پہلے دن سے اب تک اسی بات پر زور دیا ہے کہ ہماری سیاست ہمیشہ سے فلسطین کی مظلوم عوام کا دفاع رہے گی، وضاحت دیتے ہوئے کہا: ہم قدس شریف اور فلسطین کی آزادی کو بہت نزدیک جانتے ہیں ،سرمایہ داراور ثروت مند مغربی افراد کی شکست جنگ کے بغیر ممکن نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہم پوری دنیا میں صلح چاہتے ہیں۔

حجت الاسلام والمسلمین رئیسی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران اپنی پوری طاقت سے استکباری طاقتوں اور ان کے ظلم کے خلاف ثابت قدم رہے گا اور ہرگز استقامت کرنے سے نہیں تھکے گا۔

انہوں نے بتایا: فلسطین کا مسئلہ ؛ شیعہ یا اہلسنت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بی دفاع اور مظلوم انسانوں پر ظالموں کے ظلم کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جدید الحاد کے خلاف عالمی سطح پر تمدن رضوی کے نام سے اتحاد قائم ہو گا، رضوی تمدن سے ہی ظالموں کے ظلم کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

آستان قدس رضوی کے محترم متولی نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہا: امام غریب و امام شہید حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ میں قدس شریف کے مسئلہ پر نئی فکر کے ساتھ مختلف ممالک کے دانشوروں کی موجودگی میں افق نو نامی بین الاقوامی نشست کا انعقاد کیا گیا ہے؛ اس نشست اور باقی پانچ نشستوں میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ اس نشست کو امام رضا کے سائے میں منعقد کیا گیا ہے۔

گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امام علی رضا علیہ السلام نے مدینہ سے مرو کی جانب ہجرت کے دوران بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا اور مامون نے مولا کو کافی تکالیف دیں اور شہید کیا۔لیکن امام رضا علیہ السلام نے ان مشکلات کے باوجود اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمدن رضوی کو تشکیل دیا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬