رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، سرزمین ایران کے مشھور استاد حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر ناصر رفیعی نے اس سوال کے جواب میں کہ ہمیں "حسد" سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے اس بری سے صفت سے نجات اور بچنے کے ۵ راستے بیان کئے ، پم اس بیان کی بہلی قسط دو روز پہلے نشر کرچکے تھے اور اب دوسری قسط قارئین کے پیش خدمت ہے ۔
قرآن کریم نے سوره نساء کی 32 ویں آیت میں ارشاد فرمایا کہ «وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا؛ اور جس چیز میں اللہ نے تم میںسے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان کی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے ۔ »
اپنے اعتقادات کی گہرایوں میں خود کو یاد دہانی کرانی چاہئے کہ خداوند متعال علیم اور حکیم ہے ، اس کی یہ مرضی ہے کہ کون کس جگہ اور کس مقام پر پہونچے ، یہ کوئِی تبعیض یا پارٹی بازی نہیں ہے ۔
حسد سے بچنے کا تیسرا راستہ یہ ہے کہ ان باتوں کو ظاھر کرنے سے گریز کیا جائے جس کی بنیاد پر ممکن ہے انسان میں حسد کا جزبہ پیدا ہو ، رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں «استعینوا علی قضاء حوائجکم بالکتمان؛ اپنے کاموں کو چھپا دو » ہم نے کس قدر سفر کئے ہیں کتنی دولت موجود ہے ان باتوں کا بتانا ضروری نہیں ہے ، ان پر پردہ ڈالئے ، «و ان کل ذی نعمت محسود؛ هر وہ انسان جو اپنی نعمتوں کو سب کے سامنے ظاھر کرے گا لوگ اس سے حسد کرنے لیں ۔ »
امام صادق (ع) نے مفضل سے فرمایا « اپنے دل کے دسترخوان کو ہر کسی کے سامنے کھول کر نہ بیٹھو » ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز کو میڈیا کے حوالہ کردیا جائے ، یہ ضروری نہیں ہے کہ کل آپ فلاں جگہ تھے اور کل فلاں جگہ جارہے ہیں ، اپنے سفر ، اپنی دولت اور اپنے سرمایہ کو پوشیدہ رکھو کیوں کہ پوشیدہ نہ رکھنا اس بات کا سبب بنے گا کہ لوگ اس انسان سے حسد کرنے لگیں ۔
حسد سے بچنے کا چوتھا راستہ بے توجہی ہے ، اس راستہ کو مرحوم نراقی نے معراج السعاده میں تحریر کیا ہے ، اگر کسی سے حسد کرتے ہو تو بھی اسے بیان نہ کرو، آپ بخل کے سلسلہ میں بھی یہی فرماتے ہیں ، جو لوگ بخیل ہیں وہ زبردستی انفاق کرنے کی کوشش کریں ، کیوں کہ جب بھی کسی بری صفت کا مقابلہ کیا جائے گا وہ صفت خود بخود ختم ہوجائے گی ، غصہ کرنے والے خوش اخلاقی مظاھرہ کریں ، کم صبریا جلد باز افراد زبردستی صبر کرنے کی کوشش کریں ، حدیث میں آیا ہے کہ «اذا لم تکن حلیماً فتحلم؛ اگر حلیم اور بردبار نہیں ہو تو خود کو حلیم اور بردبار ظاھر کرنے کی کوشش کرو۔ »
یہ راستہ اس بیمار کے مانند ہے جو زبردستی دوائیں کھاتا ہے اور دوا اس پر اثر انداز ہوتی ہے ، یہ صحیح ہے کہ تم جبرا دوا کھاتے ہو ، جبرا آپریشن کراتے ہو مگر اس کے بعد صحت یاب ہوجاتے ہو ، وہ جلد باز انسان جو جبرا صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر وہ ایک مدت تک اسی عادت پر باقی رہ جائے تو آخر میں صابر انسان میں بن جائے گا ، نفسیات کے ماھرین کا بھی یہی کہنا ہے ۔
پانچواں اور آخری راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے پاس موجود چیزوں کو بغور دیکھیں اور اس کی قدر کریں ، جب صبح کے وقت قارون گھر سے نکلا تو سب نے یہ کہا کہ "خوش بحال " اے کاش یہ پیسے اور یہ دولت میرے پاس بھی ہوتی مگر جب شام کو زمین میں دھنس گیا تو سب نے یہ کہا کہ کیا بہتر ہوا کہ ہم اس کی طرح نہیں تھے ، یعنی کبھی سکہ کے دونوں رخ کو دیکھنا چاہئے ، آپ فرعون کو فقط تخت حکومت پر نہ دیکھیں بلکہ دریائے نیل میں بھی دیکھیں ۔
شیخ عباس قمّی (ره) کے بیٹے فرماتے ہیں کہ کبھی پیسے والے اور سرمایہ دار افراد ان مشکلات اور مصیبتوں سے روبرو ہوتے ہیں کہ فقراء ان میں سے کسی ایک بھی مشکل اور مصیبت سے دوچار نہیں ہوتے ، بہت کہتے ہیں کہ « ھرگز کسی کی ظاهری زندگی کا اپنی باطنی زندگی سے مقایسه نہ کریں »؛ کبھی انسان کہتا ہے کہ کیا گاڑی اور کیا گھر ہے مگر اس کی اندرونی زندگی کو کوئی نہیں دیکھتا ، ان کی مشکلات میں سے کسی ایک سے بھی آپ دوچار نہیں ہیں ، نتیجہ یہ ہے کہ اگر انسان ہمیشہ اپنے پاس موجود چیزوں کو دیکھے تو ھرگز دوسروں سے حسد نہ کرے گا۔ /۹۸۸/ ن ۹۷۰