رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یورپی یونین کے امور خارجہ کی انچارج فیڈریکا موگرینی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر غیر قانونی ہے اور اس حوالے سے یورپی یونین کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
یورپی یونین کے بیان میں آیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے صیہونی بستیوں کے تعمیر کے نتیجے میں خطے میں قیام امن کا عمل کمزور پڑ گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یورپی یونین نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں علیحدہ موقف اپنانا شروع کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کی ہمہ گیر حمایت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ یورپی یونین کا موقف اس کے برخلاف دکھائی دیتا ہے۔
اسرائیل نے پچھلے چند ماہ کے دوران فلسطینی علاقوں میں آبادی کا تناسب اور جغرافیائی حالات کو صیہونیوں کے حق میں تبدیل کرنے کی غرض سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور امریکہ اس معاملے میں اس کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔
عالمی قوانین اور ضابطوں کی رو سے فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر غیر قانونی ہے اور اسرائیل تمام تر عالمی اپیلوں اور مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی صیہونی بستیوں کی تعمیر روکنے کی غرض سے تئیس دسمبر دو ہزار سولہ کو ایک قرارداد کی بھی منظوری دی تھی۔
دوسری جانب حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے انہیں قومی آشتی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
القدس ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے حماس کے سینیئر رہنما اور پولیٹیکل بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا ہے کہ جب تک محمود عباس فتح کی قیادت کر رہے ہیں اس وقت تک قومی آشتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے ایک بار پھر حماس کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ صدر محمود عباس کی جانب سے فلسطینی پارلیمنٹ کی تحلیل کا فیصلہ غیر قانونی اور عوام کی منشا کے خلاف ہے۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن نے مزید کہا کہ صدر محمود عباس قومی رہنما کے بجائے پارٹی مفادات کی سیاست کر رہے ہیں۔/۹۸۸/ ن۹۴۰