تحریر: عرفان علی
ایران میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں انسانیت دوست حلقوں کو غم و اندوہ میں مبتلا کرکے گزرتی جا رہی ہیں۔ آخری اطلاعات تک ایران کے کل 31 صوبوں میں سے 23 صوبے سیلاب سے متاثرہ بتائے جا رہے ہیں۔ 19 مارچ 2019ء سے موسلا دھار بارشوں کے بعد سب سے پہلے ایران کے صوبہ گلستان و مازندران جو کہ بحیرہ خضر یا کیسپیئن سمندر کے کنارے تہران کے شمال مشرق و شمال میں واقع ہیں، وہاں سیلاب نے تباہی مچائی۔ کیسپئن سمندر کے لحاظ سے یہ اس کا جنوب مشرقی ساحلی علاقہ ہے۔ یہ دونوں صوبے خوبصورت، زرخیز اور ہرے بھرے علاقوں پر مشتمل ہیں۔ مازندران میں چاول یی فصل بھی کاشت کی جاتی ہے۔ ایران کا مشہور سیاحتی علاقہ چالوس مازندران میں ہے۔ یہ دونوں صوبے کئی بزرگ فقہاء و عرفاء و شعراء کا مادر وطن بھی ہیں کہ یہاں آمل، تنکابن، آق قلا، ساری، گرگان، گنبد کاووس بھی ہیں تو کیسپئن کنارے بندر ترکمن بھی۔ اور اسی سمندر کے کنارے مازندران کے ساتھ جو تیسرا صوبہ گیلان ہے، جبکہ دوسرے سرے پر گلستان صوبے کے ساتھ خراسان شمالی واقع ہے، یہ دونوں صوبے بھی سیلاب کی وجہ سے شدید نقصانات سے دوچار ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ایران کا دوسرا سرا جو خلیج فارس کے کنارے واقع ہے، یہاں سے عراق و پاکستان کی سرحدوں تک جو ایرانی علاقے واقع ہیں، انہیں بھی سیلاب نے نقصانات میں مبتلا کیا ہے اور اس طرف مالی کے ساتھ ساتھ جانی نقصانات بھی زیادہ ہوئے ہیں۔ کردستان، کرمانشاہ، ایلام تینوں کا ایک سرا عراق کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور ایلام کے ساتھ ایران کا صوبہ خوزستان ہے، جس کا ایک سرا خلیج فارس پر واقع ہے، یہاں سے خلیج فارس کے دوسرے سرے پر واقع صوبہ سیستان و بلوچستان جو دوسری طرف پاکستان کی سرحد سے جا ملتا ہے، یہاں تک اور پھر ان صوبوں کے دوسرے سرے پر خشکی پر جو صوبے ہیں، جیسا کہ صوبہ لرستان ہے، جو ایلام، کرمانشاہ اور خوزستان کے ساتھ ملحق ہے، صوبہ کھگیلویہ و بویر احمد، جو خوزستان، بوشھر اور فارس صوبوں سے ملحق ہے، چھارمحال و بختیاری، اصفھان، یزد سمیت اگر ایران کا وہ نقشہ جس میں اس کی صوبائی حد بندی ظاہر کی گئی ہو، اس پر نگاہ دوڑائیں تو پورا ایران ہی اس سے متاثر ہے، کیونکہ اکا دکا جو صوبے بچے ہوئے ہیں، ان پر امدادی سرگرمیوں کا سارا بوجھ پڑ رہا ہے۔
یوں تو ایران کے چپے چپے پر امام زادگان کے مزارات مقدسہ ہیں، لیکن امام موسیٰ کاظم کی صالح اولاد، معصوم امام ہشتم امام علی ابن موسیٰ رضا (ع) کا حرم مطھر مقدس ایران کے صوبہ خراسان رضوی میں واقع ہے، کریمہ اہلبیت (ع) بی بی پاک فاطمہ معصومہ (س) کا حرم مطھر مقدس ایران کے صوبہ قم میں واقع ہے جبکہ امام زادہ احمد بن موسیٰ (ع) المعروف شاہ چراغ کا مزار صوبہ فارس کے شہر شیراز میں ہے۔ بوستان و گلستان سعدی کے مصنف سعدی شیرازی کا وطن بھی شیراز ہے۔ ایران کوئی عام ملک نہیں ہے بلکہ دنیا کے مسلمانوں کے لئے مکہ، مدینہ، نجف، کربلا، سامرہ، کاظمین و دمشق کی طرح بزرگان دین کی مقدس سرزمین ہے، ایران کے سارے ڈیم پچانوے فیصد تک بھر چکے ہیں اور سیلاب خراسان و رضوی اور قم تک پہنچ چکا ہے۔ یہ میرے جیسے گناہگار لوگوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ جن ہستیوں کے توسل سے مجھ جیسوں کی زندگی میں خیر و برکت ہے، آج انہی کے عطا کردہ کو شعائر اللہ کی حفاظت پر خرچ کرنے کے وقت کنجوسی و بخل سے کام لوں تو دنیا و آخرت کی سیاہی مجھ جیسوں کا مقدر نہ بن جائے۔
صرف یہ نہیں ہے کہ مجھ جیسے گناہگار زائرین پر انکا کرم سایہ افگن ہے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران نے میرے مادر وطن پاکستان کی مشکل ترین وقت میں بے مثال و لازوال مدد کی ہے۔ سیلاب نے جب پاکستان میں تباہیاں مچائیں تو ایران کی انجمن ہلال احمر نے جو خدمات انجام دیں، ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ رہنے کے لئے خیمے، سونے کے لئے نفیس ایرانی قالین، اوڑھنے کے لئے بہترین کمبل، کھانے کے لئے بہترین کٹلری، بہترین صاف ستھرا کھانا، پانی، کیا کچھ نہیں تھا، جو ایران نے پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے نہیں کیا۔ بجلی کے انتظام کے لئے جنریٹر تک ایرانیوں نے فراہم کئے تھے۔ کیا آج اس ملت ایران کا یہ حق نہیں بنتا کہ انکے احسانات کا بدلہ احسان سے دیا جائے، کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ انصافین حکومت نے تو سعودی، اماراتی و امریکی محبت میں اس طرح کی لاتعلقی و بے رخی کی چادر اوڑھ رکھی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ جتنے شاہانہ اخراجات ایم بی ایس اور ابن زاید کے دوروں پر خرچ کرکے اسراف کر دیا، کیا اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ ایران کی کوئی علامتی نوعیت کی ہی مدد کر دی جاتی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر ایک بیان تک نہیں ہے کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ انہوں نے ایران سے تعزیت و ہمدردی کا اظہار کیا ہے! ایک آدھ ٹویٹ اور اکا دکا اخباری بیانات کے علاوہ پورا پاکستان ہی سیلاب زدہ ایران سے لاتعلق نظر آرہا ہے، حیف ہے!
امریکا اور اسکے اتحادی دنیا کو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ امریکی پابندیاں اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے کی گئی بلیک میلنگ کی وجہ سے بھی دنیا کے کئی ممالک کی حکومتیں، ادارے اور شہری ایران کی مدد سے گریزاں ہوں، یہ ممکنات میں سے ہے، کیونکہ جنہیں ہوں جان و دل عزیز، انکی گلی میں جائے میں کیوں؟ پوری دنیا میں ایران پر فرقہ پرستی کا جھوٹا الزام لگانے والے کہاں ہیں آج؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای، انکے ماتحت ادارے اور ایران کی حکومت اور پوری ملت، ایک ایک شہری، آج ایران کے سیلاب زدگان کی بلا تفریق مدد کر رہے ہیں، آج کردستانی، لرستانی، خوزستانی، سیستانی و بلوچستانی، سبھی ایرانیوں کی مدد کی جا رہی ہے تو ریاست ایران یہ نہیں دیکھ رہی کہ کون سنی ہے کون شیعہ، کسی کی زبان فارسی ہے یا عرب، بلوچی یا کردی، یہ نہیں دیکھا جا رہا لیکن امریکا، سعودی و اماراتی حکام کا دوغلا پن پوری ایرانی ملت خود دیکھ رہی ہے۔ کوئی جیش العدل آج ایران کے سیلاب زدگان کی مدد کو نہیں پہنچی ہے۔ لند ن میں بیٹھا کوئی خوزستانی گروہ وہاں امریکا اور اسکے اتحادیوں کی مذمت میں سڑکوں پر نہیں نکلا۔
امریکی حکام کا بیان کہ ایران کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں، یہ ایک منافقانہ بیان ہے۔ بہتر ہوگا کہ دنیا پر اقوام متحدہ کا جو انٹرنیشنل لاء نافذ ہے، امریکا اسکا احترام کرتے ہوئے ایران سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی بحیثیت مملکت قانونی حقوق کو تسلیم کرے۔ غزہ کی کونسی مدد کر دی؟ یمن کی کونسی مدد کر دی؟ مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے، شام کے علاقے مقبوضہ جولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرکے، یمن جنگ کرنے والے سعودی اماراتی فوجی اتحاد کی سرپرستی کرکے، امریکا نے کس کی مدد کی ہے؟؟؟؟ کون سے قانون کے تحت کی ہے؟؟؟؟ امریکا کسی ملک کی کیا مدد کرے گا، خود ہی دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا مجرم ملک بھی ہے، اس کو خود کو مدد کی بھی ضرورت ہے تو ساتھ ہی عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر یہ سزا کا بھی مستحق ہے۔
لیکن پاکستان کا مسئلہ جدا ہے۔ یہاں تو امریکا کو ناراض کرنے کی شجاعت اس حد تک پائی جاتی ہے کہ بعض کالعدم تنظیموں کی وجہ سے اگر فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں بھی پاکستان کو ڈال دیا جائے، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل پابندیاں لگا دے تب بھی، نام بدل کر ان کالعدم گروہوں کو کام کرنے کو برداشت کر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کالعدم ہوتے ہوئے بھی لاڈلے ہیں، بھلے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں مسخ کر دیا جائے، یہ ذلت آمیز قیمت بھی ادا کرنے کی حد تک جایا جاسکتا ہے، لیکن ایران کے ساتھ تعلقات میں امریکا اور اسکے اتحادیوں کی ناراضگی کی قیمت ادا کرنے کی ہمت نہیں ہے، خواہ پورا پاکستان انرجی کی شدید کمی کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوب جائے، پیداوار ٹھپ ہو جائے، برآمدات نچلی ترین سطح پر سجدہ کرتی نظر آئیں، یہ سارے نقصانات بھی خوشی خوشی برداشت کرنے کی حد تک ڈرپوکی و بزدلی بھی پائی جاتی ہے، ویسے بھی انسان بھی تو مجموعہ اضداد ہے تو ریاست اور اسکے شہری بھی تو ہوسکتے ہیں!
یہی صورتحال پاکستان کی حکمران جماعت ہی کی نہیں بلکہ اسکی اتحادی جماعت کی بھی ہے اور اس میں اپنے اور پرائے سبھی ایک پیج پر ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ پورے پاکستان سے کسی بھی سیاسی، مذہبی یا فلاحی تنظیم کی طرف سے بھی ایران کے سیلاب زدگان کی انسانی امداد کے لئے کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ یہ وہی ایران ہے، جہاں آج تک فلسطین کے مظلوم کے لئے چندہ جمع ہوتا ہے، یہ وہی ایران ہے، جو دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ وہی ایران ہے، جو کشمیر سے برما تک مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ کیا ایران کے سیلاب زدہ مسلمانوں کا اتنا حق بھی نہیں تھا کہ ان کے لئے امدادی کیمپ لگائے جاتے۔ کیا ایران کے سفارتی مشن جا کر ان سے مطلوبہ امداد کی تفصیلات جمع کرنا کوئی مشکل کام تھا، کیا از خود امدادی کیمپ لگا کر امداد جمع کرنے پر بھی پاکستان میں کوئی غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی ہے؟ یہ بے حسی، چہ معنی دارد؟!
کچھ عرصہ قبل ایک دوست نے ایک آڈیو فائل بھیجی، ایک پاکستانی رہنما ایران سے اپنے روحانی و ایمانی تعلقات کی تفصیلات بیان کر رہے تھے، ایران ابراھیم ہمت شہید کی سرزمین ہے۔۔۔ تو میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی کہ کیا کسی شہید کی برسی پر کہا ہے اور اس آڈیو کو اپنے حلقوں میں پھیلانے کی ضرورت کیوں آگئی ہے، جو میرا تبصرہ تھا، وہ یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ پچھلے دس دن سے انتظار میں تھا کہ شاید اب، شاید اب کوئی عملی امدادی سرگرمی شروع ہوگی، لیکن نہیں ہوئی، نو دن پہلے ایک دوست سے کہا کہ وہ ذرا ان صاحبان تک میری رائے پہنچائے، رائے تو پہنچ چکی۔ کل ایک پاکستانی دوست حال مقیم ایران نے اس موضوع کو چھیڑا تو پھر اپنی تجاویز کو دہرادیا، اس دوست نے سوشل میڈیا پر پہل کر دی تھی اور براہ راست رابطوں کے بعد انہیں امید تھی کہ گذشتہ شب تک کوئی اعلان کر دیا جائے گا، لیکن آج سہ پہر تک کوئی اعلان نہیں ہوا۔ اب تک سوائے تعزیتی بیانات کے خاموشی ہے۔
اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں صرف ایک مسلمان ملک ترکی اور ایک غیر مسلم ملک جرمنی نے اور عراق اور مقبوضہ کشمیر کے مومن و متدین حریت پسند عوام نے ایرانی سیلاب زدگان کو امدادی سامان بھیجا ہے اور باقی کل پیران دی خیر والا معاملہ ہے۔ خلیفہ اردگان کے پاکستانی مرید ویسے ہی دو کشتیوں کے سوار ہیں، ایک طرف رجب طیب اردگان انکے آئیڈیل ہیں تو دوسری طرف خلیجی عرب ممالک سے آسرا لگا رہتا ہے، اس لئے سیلاب زدہ ایرانیوں کے لئے انکا بھی کوئی امدادی کیمپ نہیں لگا، شاید اردگان کی تقلید اس معاملے میں کرنا انکے بھی وارے میں نہیں آتا! شیعہ جماعتوں کا نام لیں گے تو پھر یہاں درجنوں جماعت پرست و شخصیات پرستوں نے وہ حشر اٹھا دینا ہے کہ الامان الحفیظ! آخر میں ایران کی انقلابی ملت و نائب امام زمان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ سیلاب اپنی جگہ ایک وقتی مصیبت ہے، کچھ اموات اور بہت زیادہ مالی نقصانات ضرور ہیں، لیکن یہ سیلاب ایران کی بنجر زمین کو زرخیز بنا دے گا اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرے گا، خشک سالی ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ آپ نے ہم پاکستانیوں کی مدد کی، جسے مجھ جیسا کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔
سندھی مقولہ ہے جنھن جو کھائجے، تنھن جولاھجے، لاھی نہ سگھجے تہ پوئے گائجے! یعنی جس کا کھاؤ تو بدلے میں ویسی ہی نیکی کرکے اسکو اتار دو اور اگر اس احسان کا قرض اتار نہیں سکتے تو کم از کم اس کو سراہتے رہو۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اپنی زندگی میں رہبر معظم کو بہت کم اشکبار دیکھا اور پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے امداد کی اپیل کرتے وقت امام خامنہ ای کو نم دیدہ دیکھا، تو یہ انکی زندگی میں ایسا پہلا موقع تھا۔ یہ مثال دی جاتی ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، مجھ جیسا ہر کوئی ایران کے سیلاب زدگان کے لئے یہی جذبات رکھتا ہے اور اگر پاکستان کے متدین، مومن و صالح انقلابی جوان متوجہ ہوگئے تو ان شاء اللہ پاکستانی امداد بھی جلد ملت ایران تک پہنچے گی۔
منبع: اسلام ٹائمز