رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق لیبیا میں قانونی حکومت مخالف باغی رہنما خلیفہ حفتر نے طرابلس کے خلاف محاذ جنگ کھولنے سے ایک ہفتے قبل سعودی حکام بالخصوص شاہ سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کی تھی۔
لیبیا میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور خانہ جنگی کو ایک بار پھر ہوا دینے والے سعودی نواز جنرل خلیفہ حفتر نے دارالحکومت طرابلس پر حملہ کرنے سے قبل سعودی حکام سے تین درخواستیں کی تھیں۔
لیبیائی ذرائع کے مطابق خلیفہ حفتر نے طرابلس کے خلاف محاذ جنگ کھولنے سے ایک ہفتے قبل سعودی حکام بالخصوص شاہ سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کی تھی اور ان سے تین درخواستیں کی تھیں:
پہلی درخواست یہ تھی کہ اسے اطمینان دیا جائے کہ طرابلس کے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ کے تعلق سے امریکی مخالفت سامنے نہیں آئے گی اور یہ اطمینان اسے دے دیا گیا۔نتیجتاً نہ صرف یہ کہ امریکہ نے اسکی کوئی مخالفت نہیں کی بلکہ ہمیشہ کی طرح ملک کی قانونی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے اس جنرل کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔
خلیفہ نے دوسری درخواست یہ کی تھی کہ سعودی حکام جنگ جاری رکھنے کے لئے اسکی مالی و اسلحہ جاتی حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور یہ بھی قبول کر لی گئی۔
جنرل حفتر نے سعودی بادشاہ سے تیسری درخواست یہ کی کہ سلفی مفتی اسکی حمایت میں فتوے صادر کریں تاکہ اسے حکومت کے خلاف جنگ کرنے کے لئے با آسانی افرادی قوت مل سکے۔
واضح رہے کہ لیبیا کی قومی وفاق کی حکومت کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے مگر اس کے باوجود امریکہ، خلیفہ حفتر نامی مخالف کمانڈر کے زیر کمان فوج کی باضابطہ طور پر حمایت کر رہا ہے۔
امریکہ کے ایک سینیئر سفارتکار جیفری فلٹمین نے خلیفہ حفتر کے لئے امریکی صدر ٹرمپ کی حمایت کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر بمباری کے آغاز سے تعبیر کیا ہے۔