27 June 2019 - 20:34
News ID: 440681
فونت
حجت الاسلام سید عمار حکیم :
راق کی مزاحمتی تحریک "حکمت ملی کے سربراہ نے کہا کہ عراق نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تاحال قبول نہیں کیا اور بذاتِ خود اس غاصب ریاست کے ساتھ مسلم ممالک کے معمول کے تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ثابت ہوا ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عراق کی مزاحمتی تحریک "حکمت ملی" (تیار الحکمۃ الوطنی) کے سربراہ سید عمار الحکیم نے بحرین میں ہونے والی "منامہ کانفرنس" کے "صدی کی ڈیل" کے پہلے قدم کے طور پر انعقاد پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "بحرین (منامہ) کانفرنس" نے مردہ حالت میں جنم لیا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی : ایک طرف تو صیہونی ریاست اسرائیل حکومت کی تشکیل میں ناکامی پر مبنی اپنے داخلی مسائل میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں وہاں عملی طور پر کوئی حکومت ہی موجود نہیں، جو اس کانفرنس میں شریک عرب ممالک کے ساتھ مذاکرات انجام دے سکے، جبکہ دوسری طرف نہ صرف عرب دنیا کی رائے عامہ اس قسم کی کانفرنس کے انعقاد کے سرے سے خلاف ہے بلکہ عرب ممالک کا موقف بھی شدید اختلافات کا شکار ہے۔ بعض ممالک نے تو اس کانفرنس کا بائیکاٹ ہی کر دیا ہے۔

سید عمار حکیم نے اپنے بیان میں بحرین میں منعقد ہونے والی "منامہ کانفرنس" کو دراصل "صدی کی ڈیل" کی خاطر غاصب صیہونی حکومت اور عرب ممالک کے درمیان ایک مذاکراتی جلسہ قرار دیا۔

واضح رہے کہ عراق ان ممالک میں سے ایک ہے، جنہوں نے نہ صرف اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی بلکہ اس کانفرنس کا علی الاعلان بائیکاٹ بھی کیا ہے۔ عراق نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تاحال قبول نہیں کیا اور بذاتِ خود اس غاصب ریاست کے ساتھ مسلم ممالک کے معمول کے تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ثابت ہوا ہے، جبکہ عراق نے خود کو ہمیشہ مسئلۂ فلسطین کا دفاع کرنے والا ملک قرار دیا ہے۔

دوسری طرف دو روزہ منامہ کانفرنس کا منگل کے روز بحرین کے دارالحکومت منامہ میں آغاز جبکہ بدھ کے روز اختتام ہوا۔ "منامہ کانفرنس" دراصل اسرائیلی امریکی منصوبے "صدی کی ڈیل" کا زمینہ ہموار کرنے کا پہلا قدم ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے لاگو جبکہ ٹرمپ کے داماد "جیئرڈ کشنر" کی طرف سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

صدی کی ڈیل پورے مقبوضہ فلسطین اور مغربی کنارے میں موجود بستیوں کے اسرائیل میں ضم ہو جانے، فلسطینی بےگھر پناہ گزینوں کے اپنے وطن پر واپسی کے حق کے مکمل خاتمے اور "ابودیس" نامی شہر کے فلسطینی ملک کے دارالحکومت قرار پانے پر مشتمل ہے۔ منامہ کانفرنس کے بعد طے یہ پایا ہے کہ پہلے مرحلے میں مقبوضہ فلسطین، مصر اور اردن کی سرزمینوں پر انفراسٹرکچر کی تعمیر، ملازمتوں کی فراہمی اور مغربی کنارے سے غزہ کی پٹی تک کی رابطہ سڑک کے بنائے جانے پر عرب ممالک کی طرف سے 50 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬