رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر انسانی معاشرہ ہر لحاظ سے تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ جہالت، قتل و غارتگری، ظلم و ستم، اخلاقی پستی اور دوسروں کے حقوق کی پامالی کرنا دنیا بھر میں رائج تھا۔ انسانیت نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ ایسی صورتِ حال میں جزیرۃُ العرب اور خاص طور پر مکہ کی سرزمین بھی انہیں معاشرتی اور سماجی برائیوں سے آلودہ تھی۔
پیغمبرِ اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر انسانی معاشرہ ہر لحاظ سے تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ جہالت، قتل و غارتگری، ظلم و ستم، اخلاقی پستی اور دوسروں کے حقوق کی پامالی کرنا دنیا بھر میں رائج تھا۔
انسانیت نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ ایسی صورتِ حال میں جزیرۃُ العرب اور خاص طور پر مکہ کی سرزمین بھی انہیں معاشرتی اور سماجی برائیوں سے آلودہ تھی۔ بُتوں کی پرستش، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا اور سالہا سال تک جاری رہنے والا جنگ و جدال کا سلسلہ، سُود خوری، شراب نوشی، عیش پرستی اور اسی طرح کی دیگر غیر انسانی بُری صفات ان میں پائی جاتی تھیں۔
قرآن مجید میں زمانۂ جاہلیت کی بُرائیوں کی جھلک کچھ یوں بیان کی گئی ہے: (اے پیغمبرؐ!) آپؐ کہہ دیجئے: آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتاؤں جو تمہارے ربّ نے تم پر حرام قرار دیں ہیں، وہ یہ کہ تم لوگ کسی کو اُس کا شریک نہ بناؤ، والدین پر احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی اور اعلانیہ اور پوشیدہ کسی طور پر بھی بےحیائی کے قریب نہ جاؤ اور جس نفس کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے، اُسے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ نے اِس آیتِ کریمہ میں جاہلیت کے زمانے کی باطل رسومات اور غیراخلاقی اقدار کو بیان فرمایا ہے۔ اِس کے علاوہ دیگر آیتوں میں بھی اُس زمانے کی تصویر کشی کیگئی ہے۔ ایسے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر اپنا خاص لطف و کرم کرتے ہوئے اپنے آخری نبی اور رسولؐ کو رحمۃ للعالمین[2] بنا کر بھیجا تا کہ گمراہ لوگوں کو سیدھے راستے کی ہدایت فرما کر انہیں انسانیت کی معراج تک پہنچایا جا سکے۔ آپؐ کی بعثت کے مختلف اہداف اور اسباب و عوامل ہیں جنہیں انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔
۱۔ اَقدار کا انقلاب
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ اَقدار جو لوگوں کی دُنیوی اور اُخروی زندگی کے مخالف تھیں، انہیں ایسی اَقدار میں تبدیل کر دیا گیا جن کا محور و مرکز خداوندِ متعال اور انسانیت تھا۔جنگ وخونریزی کو بھائی چارے[3] اور ظلم و بےانصافی کو عدالت و مساوات میں تبدیل کر دیا گیا۔ انسانیت کا معیار تقویٰ قرار دیا گیا[4]، جس کی وجہ سے معاشرے کے وہ افراد جو ظاہری طور پر جاہ و حشم کے مالک نہ تھے، لیکن اخلاقی اَقدار کے مالک تھے، انہیں عزّت و مقام سے نوازا گیا۔ جبکہ وہ افراد جو اپنی دولت اور مقام کے ذریعے خود کو بڑا سمجھتے تھے انہیں کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے فلسفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اِس نکتے کو یوں بیان فرماتےہیں: ’’أَلَا وَ إنَّ بَلِیَّتَکُمْ قَدْ عَادَتْ کَهَیْئَتِهَا یَوْمَ بَعَثَ اللَّهُ نَبِیَّهُ - صلّی الله علیه و آله – وَ الَّذِی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً وَ لَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَ لَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتَّی یَعُوْدَ أَسْفَلُکُمْ أعْلَاکُمْ وَ أعْلَاکُمْ أَسْفَلَکُمْ‘‘[5]؛ ’’تمہیں جاننا چاہیئے کہ تمہارے لیے وہی آزمائشیں اور امتحان پھر پلٹ آئے جو رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے موقع پر تھے۔ اُس ذات کی قسم جس نے رسولؐ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا، تم بُری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اسی طرح چھانے جاؤ گےجس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہےاور اسی طرح اُلٹ پلٹ دیئے جاؤ گے جس طرح چمچے سے ہنڈیا اُلٹ پلٹ دی جاتی ہے، یہاں تک کہ تمہارے ادنی ٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنی ٰ ہو جائیں گے۔‘‘
امام علی علیہ السلام نے اعلیٰ طبقے کے افراد کی جگہ ادنی ٰ افراد کے آنے اور ظاہری و مادی اقدار کے بجائے، معنوی اقدار کے جگہ لے لینے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کیونکہ بعثت کے بعدزمانۂ جاہلیت کی انہیں ظاہری و مادی اقدار کو انقلابی و معنوی اقدار میں تبدیل کیا گیا تھا۔
۲۔ روح کا تزکیہ
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے اہم ترین اہداف میں سے ایک ہدف انسانوں کی تہذیب اور ان کی تربیت کرنا تھا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی یہی کوشش تھی کہ انسان کی اندرونی طاقت و استعداد کو مثبت پہلوؤں کی طرف گامزن کیا جائے، تا کہ وہ کمال اور سعادت کی بلندیاں حاصل کر سکے۔ قرآنِ کریم سورۂ آلِ عمران میں اِس نکتہ کو اس انداز سے بیان فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلیَ المُؤْمِنینَ إذْ بَعَثَ فیهِمْ رَسُولاً مِنْ أنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ﴾[6]؛ ’’ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اِس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘
رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت اور کتاب و حکمت کی تعلیم کے ذریعے انسانوں کی روح و جان کو نئی زندگی بخشی اور کفر و جاہلیت کے زنگ کو دُور فرمایا، جس کی بدولت لوگ سعادت کی راہ پر گامزن ہوئے۔
۳۔ مقامِ عبودیت کا حصول
قرآنی تعلیمات کے مطابق، انسان کی خلقت کا مقصد صرف خدا کی پرستش ہے اور اِس کائنات کی تمام چیزیں انسان کے اختیار میں دی گئی ہیں تا کہ وہ عبودیت کے مراحل طے کر سکے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الاِنْسَ إلَّا لِیَعْبُدُونَ﴾[7] انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو بُتوں کی پرستش سے نجات دِلا کر ایک خدا کے سامنے جھکنے اور اس کے سامنے سربسجود ہونے کی ترغیب دلائیں[8]، تا کہ جھوٹے خداؤں کی عبادت سے اُن کی جان چُھوٹے اور وہ حقیقی مالک کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی اپنا شعار توحید کو قرار دیا اور ہمیشہ تکرار فرماتے تھے: ’’قُوْلُوا لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ تُفْلِحُوا‘‘[9] اور آپؐ نے اپنے سامعین کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسان کی کامیابی اور خوشبختی اسی میں ہے کہ وہ ایک خدا کی پرستش و بندگی اور جھوٹے خداؤں کی نفی کرے۔
۴۔ بھائی چارے کی فضا کا قیام
نبوت ایک ایسی محکم رسی ہے جس کے زیرِ سایہ تمام لوگ ایک پرچم تلے جمع ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کے وہ افراد جنہوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالوں جنگ کر کے اپنی زندگی کو جہنم میں تبدیل کر لیا تھا یا اپنے چھوٹے چھوٹے گھریلو اختلافات کو قوم و قبیلے کی جنگوں میں بدل دیا تھا، اگر ایسے افراد وحی کی تعلیمات پر اپنے کان دھر لیتے ہیں تو ایسے بھائی بن جاتے ہیں، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبھی ایک ایسے بگڑےہوئے معاشرے کی اصلاح کے لیے مبعوث کیا گیا تا کہ وہ لوگ نبوّت کی رسی کو تھام کر توحید کے زیرِ سایہ جمع ہو جائیں اور اپنے تمام اختلافات بُھلا کر ایک نئی داستان رقم کریں۔
اللہ تعالیٰ سورۂ آلِ عمران میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لَا تَفَرَّقُوا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾[10]؛ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اُس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں اُلفت و محبت ڈال دی اور اُس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اسی طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔‘‘
اِس آیت کے مطابق پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا ایک ہدف لوگوں کے درمیان موجود اختلافات کو ختم کر کے انہیں توحید کے پرچم تلے جمع کرنا تھا تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جس کی بنیاد انسانیت ہو اور ایسے بھائی چارے کی فضا پیدا ہو جس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف دکھائی نہ دے۔
۵۔ اخلاقی فضائل کی ترویج
اخلاقی فضائل کی ترویج اور انسانیت کو اخلاق کی اعلیٰ صفات سے مزیَّن کرنا، انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے۔ اگر ہم پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں آپؐ کی پوری زندگی اِن اخلاقی فضائل سے پُر نظر آئے گی۔ اسی نکتے کی طرف پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِس حدیث میں اشارہ فرماتے ہیں: ’’إنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ‘‘[11]؛ ’’میں اس لیے مبعوث ہوا ہوں کہ اخلاقِ حسنہ کو تکمیل تک پہنچاؤں۔‘‘
اِن اہداف کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت تمام انسانیت کی نجات کا سبب تھی۔ اگر آج بھی اِن تعلیمات پر صحیح طریقے سے عمل کیاجائے تو انسان کی کھوئی ہوئی عظمت واپس آ سکتی ہے اور وہ معراجِ انسانیت حاصل کر سکتا ہے۔