رسا نیوز ایجنسی: حضرت آیۃ اللہ سید محمد رضوی نجفی ؒ 1305 ھ میں کشمیر کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت امام جوادؑ کے بیٹے حضرت موسیٰ مبرقع ؒ [1] کی نسل میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ مبرقع کی نسل میں ایک عالم دین سید حسین قمی ؒ نے تبلیغ دین کی غرض سے کشمیر کی طرف ہجرت کی۔ وہ وہیں کشمیر میں ہی دفن ہیں اور ان کا مقبرہ آج بھی تجلیات و کرامات کے باعث لوگوں کی عقیدت کا مرکز ہے۔ ان کی اولاد میں سے ہی حضرت آیۃ اللہ کشمیری اور علامہ حائری[2]، صاحب کتاب تفسیر لوامع التنزیل بھی ہیں۔ حضرت آیۃ اللہ سید محمد رضوی کے والد بزرگوار جناب آقای سید حسن رضوی کا شمار اپنے زمانے کے معروف علمائے کرام میں ہوتا تھا اور ان کی والدہ ماجدہ کا تعلق حسینی سادات سے تھا۔
آپ کی تعلیم کا سلسلہ اپنے والد ماجد کی گود سے شروع ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ابتدائی تعلیم کشمیر کے سرکاری سکول میں حاصل کی۔ جس کے بعد ابتدائی دینی تعلیم وہیں علاقے کے علمائے کرام سے حاصل کی۔ 1374 ھ میں آپ اعلیٰ تعلیم کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ نجف اشرف میں آپ کو شیخ مجتبیٰ لنکرانی، شہید محراب آیۃ اللہ مدنی اور آیۃ اللہ محمد تقی ایراوانی سمیت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم، آیۃ العظمیٰ امام خمینی ؒ، آیۃ اللہ سید محمد باقر صدر، آیۃ اللہ سید عبدالاعلیٰ سبزواری اور آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی جیسی عظیم شخصیات سے کسبِ فیض کا موقع ملا۔
فعالیتیں
آپ اپنی تبلیغ میں جوانوں کو خاص اہمیت دیتے تھے اور آپ کے دروس میں اکثریت جوانوں کی ہوتی تھی۔ بہت سارے نوجوان آپ سے متاثر ہوکر دینی طالب علم بن گئے تھے۔ آپ اپنے نوجوان طالب علم شاگردوں کے جملہ مسائل خصوصاً ازدواج، شادی بیاہ، معاشی صورتحال اور اس طرح کے دیگر امور کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ آپ کی نوجوانوں میں مقبولیت سے حزب بعث بہت خوفزدہ تھی، یہانتک کہ آپ کو مسجد میں نماز پڑھانے سے بھی روک دیا گیا۔ بعد ازاں آپ مجبور ہوگئے کہ اپنے دروس کو بعد از نماز صبح گھر پر ہی پڑھاتے تھے۔ بالآخر آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور 12 دن زندان میں رہنے کے بعد خدا اور اہلبیتؑ سے توسل کے صدقے میں آپ کو بڑی مشکل سے رہائی نصیب ہوئی۔ رہائی کے بعد آپ دوبارہ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے، یہانتک کہ 1394ھ میں آپ کو زیارت کی غرض سے کربلا جاتے ہوئے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
یہ جمعرات کا دن تھا اور مغرب و عشاء کی نماز کے بعد اس روز بعثی حکومت نے حوزہ علمیہ نجف اشرف پر دھاوا بولا تھا، آپ اگرچہ کربلا کی جانب روانہ ہوچکے تھے، تاہم راستے میں آپ کو بھی چند دیگر علماء کے ساتھ حراست میں لے لیا گیا۔ اس مرتبہ آپ کو 17 دن تک زیر حراست رکھا گیا، یہ پہلے سے بھی زیادہ سخت قید تھی، اس مرتبہ پھر خدا اور اہلبیت ؑ سے توسل اور آیۃ اللہ شیخ صادق ایروانی کی کوششوں سے آپ کو رہائی ملی۔ رہائی کے بعد پھر آپ نے حسبِ سابق اپنی فعالیت جاری رکھی اور درس و تدریس اور تبلیغ دین میں مشغول رہے۔ اس مرتبہ رہائی کے بعد 1394ھ میں آپ نے کشمیر کے منطقے کارگل میں سانکو کے مقام پر عوام کے لئے ایک بڑی لائبریری قائم کروائی۔ لائبریری کا نام مکتبۃ الامام الرضاؑ العامۃ رکھا گیا۔ یہ عظیم کتابخانہ آج بھی علاقے کے لوگوں کے لئے باعث فیض ہے۔
درس و تدریس
آپ نے حوزوی تدریس کا باقاعدہ آغاز حوزہ علمیہ سامراہ سے کیا۔ کچھ سال سامرہ میں تدریس کے بعد آپ واپس حوزہ علمیہ نجف تشریف لے آئے، جہاں آپ تشنگان علوم اہل بیت ؑ کو رسائل، مکاسب، کفایہ اور تفسیر پڑھاتے رہے۔ آپ کو چار زبانوں، فارسی، عربی، اردو اور کشمیری پر مکمل عبور تھا، جس کی وجہ سے آپ کی تدریس سے مختلف زبانوں کے لوگ مستفید ہوتے تھے۔ واپس ایران[3] آنے کے بعد آپ نے اپنی تدریسی سرگرمیوں کا دائرہ کار مزید بڑھایا، یہانتک کہ آپ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی دروس کی تعطیل نہیں کرتے تھے۔ آپ کی صحت کی خرابی کی وجہ سے جب آپ کے اہل خانہ آپ کو تدریس سے منع کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ روزے کی طرح تدریس بھی ایک عظیم عبادت ہے۔
روحانیت اور تذکیہ نفس
آپ تذکیہ نفس کو خاص اہمیت دیتے تھے، آپ کا کہنا تھا کہ علم ہمیشہ عمل کے ہمراہ ہونا چاہیئے، ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، ذکر صلوات ہمیشہ آپ کے لبوں پر رہتا تھا اور آپ کثرت سے سورہ اخلاص اور سورہ قدر کی تلاوت فرماتے تھے۔ آپ خود بھی ہمیشہ وضو سے رہتے اور دوسروں کو بھی اس امر کی تاکید کرتے۔ آپ مشکلات کے حل کے لئے اہلبیت ؑ سے توسل کو ضروری سمجھتے تھے اور اسی طرح کسی بھی بیماری سے شفا کے لئے خاک کربلا کو اکسیر گردانتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک ایسے مریض کو آپ کے پاس لایا گیا، جس کے بارے میں ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اس کی انگلی کاٹنا ضروری ہے، ورنہ اس کی بیماری سارے جسم میں پھیل جائے گی۔ آپ نے مریض کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے گھر والوں سے کہا کہ حضرت امام حسین ؑ سے توسل کرکے خاک کربلا سے استفادہ کریں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور مریض کو شفا مل گئی۔
آپ ہمیشہ خاک کربلا کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ امام حسینؑ سے توسل اور خاک کربلا ہر بیماری کا علاج ہے۔ اسی طرح یہ مشہور واقعہ ہے کہ رجب 1399 ھ میں جب صدام کے لشکریوں نے آیۃ اللہ باقرالصدرؒ کو شہید کر دیا تو انہوں نے ان کے گھر پر بھی حملہ کیا اور دروازہ توڑنے کی غرض سے جمع ہوگئے۔ اس موقع پر آپ نے رسولِ خداؐ سے توسل کیا، جس کے کچھ ہی لمحوں کے بعد حملہ آور فوجی ان کے گھر کو چھوڑ کر کسی اور طرف نکل گئے۔ 1411 ھ یعنی 1991ء میں آپ کے بیٹے حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد طہٰ رضوی اور دیگر 17 افراد جن میں آیۃ اللہ سیستانی بھی شامل تھے، ان کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ آپ کافی عرصے تک ان کی رہائی کے لئے کوشش کرتے رہے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، بلآخر ایک روز آپ غسل کرکے مکان کی چھت پر تشریف لے گئے، جہاں آپ نے رسول اللہ ؐ سے توسل کیا۔ اسی روز آپ کے فرزند سمیت تمام علمائے کرام رہا ہوگئے۔
آپ کی اخلاقی صفات
ہر سائل کی ممکنہ مدد، فقراء کی دستگیری اور یتیموں سے شفقت آپ کا معمول تھا۔ نماز کو ہمیشہ جماعت سے پڑھنا اور نماز صبح کو پابندی سے مسجد میں یا حرم امیرالمومنینؑ یا حرم معصومہ قمؒ میں یا کسی بھی امام کے حرم میں ادا کرتے تھے اور اس طرح آپ کی زندگی کے مبارک دن کا آغاز ہوتا تھا۔ نماز شب اور غسلِ جمعہ کی ادائیگی پر بہت تاکید کرتے تھے، اپنے نجف اشرف میں قیام کے دوران آپ نے کسی بھی ہفتے زیارت ِ امام حسینؑ کو ترک نہیں کیا، ہر جمعرات کو آپ کربلا تشریف لے جاتے تھے۔ آپ مال امام میں تصرف کے حوالے سے بہت احتیاط کرتے تھے، حتی کہ مستحب امور اور زیارت امام حسینؑ جیسے امر کے لئے بھی سھمِ امام سے استفادہ نہیں کرتے تھے۔ آپ اپنے زندگی کے روز مرہ خرچ کے لئے درزیوں کا کام کرتے تھے اور ہر روز چند گھنٹے اس طریقے سے کسبِ معاش کے لئے صرف کرتے تھے۔ اسی طرح طالب علموں کو ملنے والے وظیفے سے بھی بہت کم استفادہ کرتے تھے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے ہاتھوں کی کمائی پر گزر اوقات کرتے تھے۔
وفات اور تدفین
1371 ھ میں صدام کے مظالم کے باعث آپ ایران کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایران میں ہمیشہ وہ نجف اشرف کو یاد کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسے ہی صدام ملعون کا خاتمہ ہوگا، وہ واپس پلٹ جائیں گے۔ 1374 ھ ش میں انہیں دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد وہ بسترِ بیماری پر پڑ گئے۔ کافی عرصے تک وہ مریض رہے، لیکن کبھی انہوں نے کسی سے اپنی بیماری کی شکایت نہیں کی، بلکہ وہ بیماری کو اپنے لئے امتحان ِ پروردگار سمجھتے تھے۔ وہ تقریباً دس سال تک بسترِ بیماری پر رہے اور اس دوران وہ اپنے ملنے والوں کو صبر کی تلقین کرتے تھے اور حضرت ایوب ؑ کی بیماری کا ذکر کیا کرتے تھے۔ بالآخر 9 رجب المرجب 1426 ھ ق کو پیر کے روز صبح کے وقت اس دارِ فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ ان کے جسدِ مبارک کو ان کے جد مبارک حضرت امام جوادؑ کی ولادت کی شب بی بی معصومہؑ کے جوار میں قم ِ نو کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ۔ان کا مقبرہ چھل اختران قم ایران میں ہے
[2] ۔ان کی قبر لاہور میں ہے