06 August 2020 - 14:59
News ID: 443390
فونت
غدیر کا انکار یعنی حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی جانگذار رحلت کے بعد سرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بلافصل خلافت و جانشینی اور امامت و ولایت کو نہ ماننا۔ یہ انکار دراصل الہی ، دینی و قرآنی محکم نص کا انکار ہے اور اللہ و رسول کے واجب الاتباع امر و حکم سے کھلی سرتابی اور بغاوت ہے۔

تحریر: حجت الاسلام و المسلمین ظھور مھدی مولائی

غدیر کا انکار یعنی حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی جانگذار رحلت کے بعد سرکار امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کی بلافصل خلافت و جانشینی اور امامت و ولایت کو نہ ماننا۔ یہ انکار دراصل الہی ، دینی و قرآنی محکم نص کا انکار ھے اور اللہ و رسول کے واجب الاتباع امر و حکم سے کھلی سرتابی اور بغاوت ہے۔

اس امر و نص کے انکار کی وجہ سے ملت اسلامیہ جن بھیانک نتائج میں مبتلا ہوئی ہے وہ کسی آگاہ و باخبر نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔

چنانچہ انھیں اہل سنت کے مستند و معتبر علما و مورخین نے بھی محسوس کرکے باقاعدہ اپنی کتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے جس کے کچھ نمونے ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:

۱۔ ڈاکٹر احمد محمود صبحی کہتے ہیں کہ :
سیاست یا نظام بیعت کے سلسلہ میں اہل سنت کے طرز فکر نے بہت سی گرفتاریاں ایجاد کی ہیں ، پہلے تین خلفاء میں سے ہر ایک نے دوسرے کے خلاف امر و حکم کیا ہے ، اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ ان کے طرح طرح کے مختلف نظریات و اقدامات سے اسلامی نظریہ کا استباط کیا جائے اور جمہور مسلمین اس سے متفق ہوں۔ (1)

انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
جائر و ظالم خلفا کے دور میں تسلط اور زورو طاقت کی بیس پر بنام اسلام جو کچھ بھی واقع ہوا ہے ، اسلام اس سے بری ہے اور اس کا گناہ قیامت تک ان کی گردن پر ہے جو اس طرح کی حکومت رکھتے تھے۔(2)

۲۔ معروف عالم و مورخ مقریزی نے لکھا ہے کہ:
خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے کہ رسول خدا کے بعد ایسے خلفاء آئیں گے ، جو ھدایت و دین حق کے مطابق قضاوت نہیں کریں گے اور ہدایت کی سنتوں کو بدل ڈالیں گے۔(3)

۳۔ڈاکٹر طہ حسین مصری نے بالصراحت لکھا ہے کہ :
علی ، لوگوں میں سب سے زیادہ پیغمبر سے نزدیک تھے ، وہ پیغمبر کےتربیت یافتہ اور امانتوں میں آنحضرت کے جانشین تھے ، وہ پیغمبر کے عقد اخوت کے حکم کی بنا پر ان کے بھائی تھے ، وہ ان کے داماد اور ان کی ذریت کے باپ تھے ، وہ ان کے علمدار اور اہل بیت کے درمیان ان کے خلیفہ تھے اور وہ نص نبوی کے مطابق آنحضرت کے نزدیک وہی منزلت و مرتبت رکھتے تھے جو موسیٰ کے نزدیک ھارون کی منزلت و مرتبت تھی۔

اگر تمام مسلمان اسی کے قائل رہتے اور اسی بیس پر علی کو منتخب کر لیتے تو ہرگز حق سے دور اور منحرف نہ ہوتے۔(4)

۴۔ ڈاکٹر احمد امین مصری کہتے ہیں کہ :
رسول اسلام نے اسی مرض میں (جسکی وجہ سے آپ دنیا سے سدھارے ہیں) یہ ارادہ کیا کہ اپنے بعد مسلمانوں کے ولئ امر کو معین فرمادیں ، چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی نقل کے مطابق آپ نے فرمایا : " لاؤ میں ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہونے پاؤ "۔

لیکن وہ مسلمانوں میں جسے چاہتے رہے خلیفہ مقرر کرتے رہے ، اسی لئے مسئلہ خلافت میں اس زمانہ تک اختلاف چلا آرہا ہے۔

اسلام ، رسول خدا کے زمانہ میں قوی و متین تھا لیکن جیسے ہی آنحضرت نے دنیا سے رحلت فرمائی گھربار جلا دینے والے معرکے شروع ہوگئے۔ (5)

انھوں نے یہ بھی اظہار کیا ہے کہ :
اختلافی نمونوں میں سے یہ ایک تھاکہ وہ ( صحابہ ) رسول خدا کے بعد امر خلافت کے ولی و متولٌی کے سلسلہ میں اختلاف کر بیٹھے ، یہ خود ان کی لیاقت کے کمروز ہونے کی علامت ہے ، اس لئے کہ رسول اللہ کو دفن کرنے سے پہلے انھوں نے اختلاف کیا ہے۔(6)

۵۔ مشہور عالم حاحظ رقمطراز ہیں کہ :
معاویہ نے اپنی حکومت میں ظلم و استبداد کا راستہ اپنایا اور اس نے شورىٰ کے باقی ماندہ افراد اور انصار و مہاجرین پر مشتمل مسلمانوں کی ایک جماعت پر " عام الجماعہ " میں ظلم و ستم ڈھایا ہے ، درحالیکہ" عام الجماعہ " جماعت و اتحاد کا سال نہیں تھا بلکہ تفرقہ ، قہر ، جبر اور غلبہ کا سال تھا یہ وہی سال تھا جس میں امامت ، کسروی بادشاہت اور خلافت ، قیصری سلطنت میں بدل گئی تھی۔ (7)

۶۔ مورخ شہیر سید امیر علی ہندی کہتے ہہں کہ :
معاویہ کے خلافت کو ہاتھوں میں لینے سے شام میں سابقہ بت پرستی ، اسلامی ڈیمو کراسی کی جگہ پلٹ آئی۔(8)

ایک جگہ انھوں نے یہ بھی صراحت کی ھے کہ بنی امیہ نے خلافت کے اصول اور اس کے تعلیمات کو ھی نہیں بدلا بلکہ ان کی حکومت نے ، اصل و اساس اسلام کو سرنگوں کرڈالا۔ (9)

یہ انکار غدیر کے بہت سے بھیانک نتائج میں چند تھے جنھیں ھم نے نمونہ کے طور پر یہاں پیش کیا ہے۔

بلاشبہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ انکار غدیر کا خمیازہ امت مسلمہ ہنگام انکار سے لے کر آج تک بھگتی چلی آرہی ہے اور اسی طرح قیامت تک بھگتی رھے گی مگر یہ کہ اپنے اس قبیح عمل سے توبہ کر کے آخری وارث و ولئ غدیر حضرت امام عصر علیہ الصلوۃ والسلام کی امامت و ولایت کے گھنے سایہ تلے آجائے اور ان کی محبت و اطاعت سے اپنے کو مزین و آراستہ کرے۔

اللھم عجل لولیک الفرج واجعلنا من اعوانہ و انصارہ والعن اعدائہ اجمعین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے :
۱۔ نظریة الامامة لدى الشیعة الاثنى عشریة، ص ۵۰۱۔
۲۔ حوالہ سابق ، ص۲۷۹۔
۳۔ النزاع و التخاصم، ج ۱۲، ص ۳۱۵۔۳۱۷۔
۴۔الفتنة الکبرى، ج ۱، ص ۱۵۲۔
۵۔ یوم الاسلام، ص۴۱۔
۶۔ حوالہ سابق ، ص۵۳۔
۷۔ رسائل الجاحظ ، ج ۲ ، ص ۱۰ و ۱۱۔
۸۔ مختصر تاریخ العرب و التمدن الاسلامى، ص۶۳۔
۹۔ روح الاسلام ، ص ۲۹۶۔

/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬