عید غدیر کے سلسلہ میں معصومین علیهم السلام کا فرمان
آیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل امیرالمومنین علی علیہ السلام کی امامت اور جانشینی کے بارے میں کچھ فرمایا تھا؟
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اور غدیر:
حضرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیھا سے پوچھا گیا:
آیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل امیرالمومنین علی علیہ السلام کی امامت اور جانشینی کے بارے میں کچھ فرمایا تھا؟
آپ سلام اللہ علیھا نے جواب دیا: وا عجبا، کیا تم لوگ روز غدیر خم کو بھول گئے ہو؟
اسی طرح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ایک اور موقع پر فرمایا:
خداوند متعال نے غدیر خم کے ذریعے سب پر اپنی حجت تمام کر دی ہے اور کسی کے پاس کوئی بہانہ باقی نہیں بچا۔
ایک دن حضرت زہرا سلام اللہ علیھا احد کے مقام پر اپنے والد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا سید الشھداء حضرت حمزہ کے مزار پر گریہ کناں تھیں۔ اسی دوران محمود بن لبید کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ باہر ہی بیٹھ گیا اور جب حضرت زہرا سلام اللہ علیھا عزاداری سے فارغ ہوئیں تو اس نے آپ سلام اللہ علیھا سے پوچھا:
اے دختر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کیا علی ابن ابیطالب کی امامت اور جانشینی کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے کوئی حدیث دلیل کے طور پر پیش کر سکتی ہیں؟
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
"وا عجبا، کیا تم غدیر خم جیسے عظیم واقعے کو فراموش کر چکے ہو؟ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ: علی وہ بہترین انسان ہے جسے میں نے آپ لوگوں کے درمیان اپنا جانشین قرار دیا ہے، علی میرے بعد آپ کا امام اور خلیفہ ہے۔ میرے دو فرزند حسن اور حسین اور ان کے بعد حسین کی نسل سے 9 افراد پاک اور نیک امام اور پیشوا ہوں گے۔ اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کی تو وہ تمہیں ہدایت کی جانب لے جائیں گے اور اگر ان کی مخالفت کی تو قیامت تک تم لوگوں میں اختلافات اور تفرقہ موجود رہے گا"۔
امام حسن و امام حسین علیھما السلام اور غدیر:
امام حسن اور امام حسین علیھما السلام ہر سال عید سعید غدیر کے موقع پر شہر کوفہ میں بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ یہ دعوتیں اور جشن حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے دوران بھی برگزار کئے جاتے تھے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل کوفہ میں عید غدیر منانے کا رواج پڑ گیا۔ اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح نامہ لکھتے وقت واقعہ غدیر خم کو بیان کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی کہ وہ حق پر ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی ایک سال حج کے موقع پر بنی ہاشم قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد اور دوسروں کو جمع کیا اور انہیں غدیر خم کا واقعہ یاد دلایا۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام کا خطبہ اور غدیر خم کو بیان کرنا:
امام حسن علیہ السلام نے اہل کوفہ کو خطبہ دیتے ہوئے ان کی توجہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کی حاکمیت جیسی عظیم نعمت کی جانب مبذول کروائی جو اب ان سے چھینی جا چکی تھی۔ امام مجتبی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے برحق اور جائز ہونے پر تاکید فرمائی اور غدیر خم کے عظیم واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"آپ لوگوں کو میرے جد امجد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ فرمائشات یاد ہوں گی جن میں وہ کہا کرتے تھے کہ: جب بھی لوگ ایسے شخص کو اپنا حکمران چن لیں جس سے زیادہ بہتر اور باصلاحیت شخص ان میں موجود ہو تو اس کا نتیجہ ان کی بدبختی کی صورت میں ظاہر ہو گا اور اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے کہ وہ جس شخص کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اسے بھول چکے ہیں اس کی جانب واپس لوٹ آئیں۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اے علی میرے بعد تمہاری مثال موسی کے بعد ہارون جیسی ہے، وہ اپنے بھائی موسی کا جانشین تھا جبکہ تم میرے جانشین اور خلیفہ ہو۔ تم میں اور ہارون میں فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔
اس کے بعد امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا:
تم لوگوں نے اپنے پیغمبر کو دیکھا ہے اور غدیر خم میں ان کی فرامین کو سنا ہے۔ اس دن میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے والد علی علیہ السلام کا ہاتھ تھاما اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: ہر وہ شخص جس کا میں مولی اور سرپرست ہوں اس کا علی مولی ہو گا۔ خدایا، ہر اس شخص سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سختی سے تاکید کی کہ موجود افراد اس واقعے کی خبر تمام ایسے افراد تک پہنچائیں جو وہاں موجود نہیں۔
امام حسین علیہ السلام اور منی میں حدیث غدیر کو بیان فرمانا:
معاویہ کی موت سے ایک سال قبل امام حسین علیہ السلام حج ادا کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن جعفر بھی آپ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ اس سال بنی ہاشم کے مرد و خواتین کی بڑی تعداد بھی حج پر موجود تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے ایام تشریق کے دوران انہیں منی کے میدان میں جمع کیا۔ اس عظیم اجتماع میں 700 سے زیادہ تابعین اور 200 سے زیادہ اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شریک تھے۔ سب افراد امام حسین علیہ السلام کے گرد پروانوں کی طرح جمع تھے اور اس انتظار میں تھے کہ آپ علیہ السلام انہیں اپنے کلام سے مستفیض فرمائیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبے کا آغاز خدا کی حمد و ثنا سے کیا اور پھر فرمایا:
"آپ لوگ اچھی طرح دیکھ رہے ہیں کہ معاویہ کے ساتھی کس طرح ہم اور ہمارے شیعیان پر ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں۔ میری باتوں کو غور سے سنیں اور انہیں لکھ لیں (تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فیض یاب ہو سکیں) اور دوسرے شہروں اور قبیلوں میں بسنے والے مومن اور قابل اعتماد ساتھیوں تک بھی پہنچائیں۔ انہیں ہم اہلبیت علیھم السلام کے حقوق کو ادا کرنے کی جانب دعوت دیں۔ مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ وقت گزر جائے اور ہمارے حقوق ضائع ہو جائیں اور ہم مظلوم قرار پائیں کیونکہ خدا سب سے بہتر حامی ہے۔ میں آپ لوگوں کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو یاد نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے روز میرے والد علی علیہ السلام کو اپنا وصی اور اپنے بعد امام اور خلیفہ قرار دیا تھا؟ اور حدیث ولایت بیان کی تھی؟ اور آپ لوگوں کو تاکید کی تھی کہ جو بھی اس وقت حاضر ہیں وہ یہ خبر ایسے افراد تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں؟"۔ سب نے مل کر جواب دیا: جی ہمیں یاد ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام اور غدیر:
فضیل بن یسار، بکیر بن اعین، محمد بن مسلم، برید بن معاویہ اور ابوالجارود امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی ولایت اور غدیر کے بارے میں فرمایا:
"خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ ولایت علی علیہ السلام کو بیان کریں اور یہ آیہ نازل فرمائی: انما ولیکم الله و رسوله و الذین آمنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة۔ اس آیہ کے نازل ہونے کے بعد اولی الامر کی اطاعت بھی مسلمانوں پر واجب ہو گئی لیکن بعض مسلمان یہ نہ سمجھ سکے کہ اولی الامر کون ہے؟ خداوند متعال نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کیلئے واضح طور پر بیان کریں اور نماز، زکات، روزہ اور حج کی طرح اولی الامر کا مصداق بھی کھلے الفاظ میں بیان کریں۔ اس حکم خداوندی کے بعد پیغمبر اکرم پریشان ہو گئے اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اس وضاحت کے بعد کچھ لوگ دین اسلام سے مرتد نہ ہو جائیں اور انہیں جھٹلانا شروع نہ کر دیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کی جانب توجہ کی اور پھر آیہ تبلیغ (یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ۔۔۔۔) نازل ہوئی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بعد دستور دیا کہ تمام مسلمان غدیر خم کے میدان میں جمع ہو جائیں اور وہاں سب کے سامنے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے جانشین اور خلیفہ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب افراد پر تاکید کی کہ وہ یہ پیغام ان لوگوں تک بھی پہنچائیں جو وہاں موجود نہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اور غدیر:
حسان جمال روایت کرتا ہے: میں امام صادق علیہ السلام کے ہمراہ مدینہ سے مکہ کی جانب سفر کر رہا تھا۔ جب ہم جحفہ کی میقات کے نزدیک "مسجد غدیر" پر پہنچے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے مسجد کے بائیں جانب دیکھا اور فرمایا: یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر کے دن علی علیہ السلام کو اپنے جانشین اور خلیفہ کے طور پر پیش کیا تھا اور فرمایا تھا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے باقی افراد کی خیمہ گاہ کی جگہ مشخص کی اور فرمایا: ابوخذیفہ کا غلام سالم اور ابوعبیدہ جراح اس طرف بیٹھے تھے۔ بعض افراد ایسے تھے جنہوں نے جب دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کا ہاتھ تھام رکھا ہے تو وہ شدید حسد کا شکار ہو گئے اور ایکدوسرے سے کہنے لگے: پیغمبر خدا کی دو آنکھوں کو دیکھو، کس طرح (نعوذ باللہ) پاگلوں کی طرح اردگرد گھوم رہی ہیں اور انہیں آرام نہیں آتا۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور یہ آیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر نازل فرمائیں: و ان یکادالذین کفروا لیزلقونک بابصارهم لما سمعوا الذکر و یقولون انه لمجنون و ما هو الا ذکر للعالمین۔ (وہ افراد جو کافر ہو گئے ہیں جب انہوں نے قرآن کو سنا تو قریب تھا تمہیں بری نظر لگا دیتے، وہ کہ رہے تھے کہ یہ پاگل ہے جبکہ قرآن دنیا والوں کیلئے آگاہی اور بیداری کے سوا کچھ نہیں)۔
حسن بن راشد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے کہا: میں نے آپ علیہ السلام کو کہا: میری جان آپ پر قربان ہو، کیا مسلمانوں کیلئے عید فطر اور عید قربان کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں اے حسن، ان دونوں سے زیادہ عظیم اور بڑی ایک اور بھی عید ہے۔ میں نے پوچھا: وہ کون سا دن ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: وہ دن جب امیرالمومنین علی علیہ السلام کو لوگوں کیلئے امام اور پیشوا مقرر کیا گیا۔ میں نے پوچھا: میری جان آپ پر قربان ہو، اس دن کون سے اعمال انجام دینے چاہئیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: روزہ رکھو اور پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجو اور جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے ہیں ان پر تبری کرو۔ تمام انبیاء الہی نے اپنے اوصیاء یہ حکم دے رکھا تھا کہ جس دن ان کا جانشین مشخص ہوا ہے اس دن کو عید کے طور پر منائیں۔ میں نے عرض کی: جو شخص اس دن روزہ رکھے اس کا کیا ثواب ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کا ثواب 60 مہینے روزہ رکھنے کا ہے۔
امام کاظم علیہ السلام اور مسجد غدیر:
عبدالرحمان بن حجاج کہتا ہے: میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں شرف یاب ہوا۔ میں سفر پر جانا چاہتا تھا۔ میں نے آپ علیہ السلام سے مسجد غدیر خم کے بارے میں سوال پوچھا۔ امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا: اس مسجد میں نماز ادا کرو کیونکہ بہت ثواب اور فضیلت رکھتی ہے۔ میرے والد فرمایا کرتے تھے کہ مسجد غدیر میں ضرور نماز ادا کریں۔
امام علی رضا علیہ السلام اور غدیر:
امام علی رضا علیہ السلام کو خبر ملی کہ کچھ لوگ واقعہ غدیر خم کا انکار کر رہے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ غدیر کا دن آسمان والوں کے درمیان زمین والوں کی نسبت زیادہ معروف ہے۔ بالتحقیق خدا اس دن مومن مردوں اور خواتین کے 60 سالہ گناہ بخش دیتا ہے اور ماہ مبارک رمضان سے دوگنا انہیں جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے۔ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ دن کس قدر بافضیلت اور اہم ہے تو یقینا فرشتے ہر روز دس بار ان سے مصافحہ کرنے آتے"۔
فیاض بن محمد بن عمر طوسی نے 259 ہجری قمری میں جب خود اس کی عمر 90 سال تھی روایت کی ہے: میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے غدیر کے دن ملاقات کی۔ آپ علیہ السلام کے حضور بعض خاص صحابی بھی موجود تھے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے انہیں افطار کی دعوت دے رکھی تھی اور ان کے گھر بھی کھانا، لباس اور تحائف حتی جوتے اور انگوٹھیاں بھجوائیں۔ امام علی رضا علیہ السلام ہمیشہ اس عظیم دن کو یاد کرتے رہتے تھے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام اور غدیر:
ایک مومن شخص نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے پوچھا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کا کہ "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" کیا مطلب ہے؟ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:
"خداوند متعال چاہتا تھا کہ یہ جملہ ایک ایسی نشانی اور پرچم میں تبدیل ہو جائے جو امت میں اختلافات کے وقت اہل حق کی پہچان کا باعث بنے"۔
امام زمانہ عج اور غدیر:
حضرت ولی عصر عج سے منسوب دعای ندبہ میں آیا ہے:
فلما انقضت ایامه اقام ولیه علی بن ابی طالب صلواتک علیهما و آلهما هادیا اذ کان هم المنذر و لکل قوم هاد فقال و الملاء امامه من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه.
"جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات آئے تو انہوں نے علی ابن ابیطالب علیہ الصلوات و السلام کو امت کی ہدایت کیلئے چن لیا چونکہ وہ ڈرانے والے تھے اور ہر قوم کو ہادی کی ضرورت ہے۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے روبرو کھڑے ہو کر لوگوں کو کہا: جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا علی مولا ہے، خدایا جو بھی علی سے دوستی کرے اس سے دوستی کر اور جو بھی علی سے دشمنی کرے اس سے دشمنی کر۔