11 August 2020 - 00:54
News ID: 443418
فونت
پاکستان نے عملی طور پر ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے، زبانی طور پر پاکستان نے ضرور غیر جانبدار رہنے کا نعرہ لگا رکھا ہے، لیکن سعودی عرب میں پاکستان کے سابق ملٹری چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ہے۔

تحریر: ثاقب اکبر

ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تجزیہ کار کئی روز سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب کے بارے میں بیان پر تجزیہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی شفٹ اور تبدیلی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بعض سادہ اندیشوں کی رائے میں یہ بیان صرف سعودی عرب کو کشمیر کے موضوع پر او آئی سی کے تحت وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کے لیے دباﺅ کی خاطر دیا گیا ہے۔ تاہم بیشتر تجزیہ کار اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں، اگرچہ اس بیان میں جس موضوع کو پاکستان کی ناراضی کی وجہ قرار دیا گیا ہے، وہ بھی اپنی جگہ پر درست ہے۔ سعودی عرب میں ضرور اس بیان سے خطرے کی گھنٹی بجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، ورنہ ریاستوں کے تعلقات اس سطح پر آجائیں کہ معاملات کو حل کرنے کے لیے ایک مولوی صاحب کو خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان سے سعودی عرب طلب کیا جائے، اسے حیرت ناک ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اس درجے پر کبھی نہ تھے کہ جنھیں سنبھالنے کے لیے ایسے کسی مولوی کی ضرورت پیش آجائے، جسے بزرگ علماء کی صف میں کوئی بھی قابل ذکر شمار نہیں کرتا۔

حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ابھی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نام نہاد اسلامی افواج کے سربراہ کی حیثیت سے سعودی عرب میں مامور ہیں۔ یقینی طور پر وہ کسی مولوی سے زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بہرحال جب کوئی پریشان ہوتا ہے تو وہ اس کے ازالے کے لیے کوئی بھی انٹ شنٹ قدم اٹھا سکتا ہے۔ کیا سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے مزاج سے ہٹ کر، دباﺅ اور دھمکی کے سلوک کو ترک کرکے پاکستان جیسی عظیم اسلامی ریاست کے وقار کے مطابق اس سے تعلقات قائم کرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں گے؟ اگر کوئی صاحب اس کا جواب ہاں میں دیں تو ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ اس کا عملی جواب ہاں میں آجائے، لیکن جو باتیں ابھی تک سامنے آئی ہیں ان سے ایسی امید خلاف امید ہی قرار پاسکتی ہے۔

پہلے تو ملائیشیا میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے حوالے سے بعض احباب کا کہنا تھا کہ ترکی کے صدر اردگان نے سعودی عرب کی پاکستان کو دی جانے والی جس دھمکی کا ذکر کیا ہے، وہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے پیش نظر درست معلوم نہیں ہوتی، لیکن آہستہ آہستہ تقریباً سب نے تسلیم کر لیا کہ سعودی عرب کی دھمکیوں کے پیش نظر ہی پاکستان نے جو خود ایک طرح سے ملائیشیا کی کانفرنس کا میزبان تھا، اس میں شرکت سے معذرت کرلی، جس کا مہاتیر محمد اور دیگر اسلامی راہنماﺅں کو شدید دکھ ہوا۔ اگرچہ مہاتیر محمد نے اپنی وسعت ظرفی کے پیش نظر اس وقت اس کا اظہار نہیں کیا، البتہ جب سعودی عرب کی طرف سے پاکستان پر مزید دباﺅ آنا شروع ہوا تو وہ چپ نہ رہ پائے اور آخر کار انھوں نے اپنے دکھ کا اظہار کر ہی دیا۔

سعودی عرب تو پھر بھی ایک نسبتاً بڑا ملک ہے، پاکستان کو یو اے ای کے وزیر خارجہ نے بھی سرعام توہین آمیز طریقے سے سخت سست کہا تھا اور ہمارے حکمران اس وقت بھی بغلیں جھانکتے رہ گئے تھے اور اس کا کوئی واضح جواب نہ دے پائے تھے۔۔۔۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کوئی ایسی بات نہیں کی کہ جو خلاف حقیقت ہو۔ انھوں نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہم ایک سال سے سعودی عرب سے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس بلانے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن اس نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا مسلمان اور پاکستانی جو آپ کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے لڑ مرنے کے لیے تیار ہیں، آج وہ آپ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ آپ وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں، جس کی امت مسلمہ آپ سے توقع کر رہی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاو کی پالیسی نہ کھیلے۔ انھوں نے کہا کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے، اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں خود وزیراعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے، جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق یہ اجلاس او آئی سی کے پلیٹ فارم یا اس سے ہٹ کر بلایا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک جملے میں لفظ "ورنہ" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ میرا نقطہ نظر ہے، اگر نہ کیا تو میں عمران خان صاحب سے کہوں گا کہ سفیرِ کشمیر! اب مزید انتظار نہیں ہوسکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ود اور ود آوٹ۔ جب میزبان نے سوال پوچھا کہ پاکستان "وِد اور ود آوٹ" سعودی عرب کے اس کانفرنس میں شریک ہوگا تو شاہ محمود قریشی نے ایک توقف سے جواب دیا کہ "ود اور ود آوٹ۔" وزارت خارجہ کی ترجمان نے بھی شاہ محمود قریشی کے بیان کو پاکستانی عوام کے جذبات اور خواہشات کی ترجمانی قرار دیا ہے۔ یہی نقطہ نظر پاکستان کے بہت سے سینیئر سفارتکاروں کا بھی سامنے آیا ہے۔

ان دنوں چونکہ سعودی عرب کی پاکستان سے کی جانے والی فرمائشات اور اس کے ماضی کے اقدامات زیر بحث ہیں تو تجزیہ کار طرح طرح کے نکات سامنے لا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نے کہا ہے کہ سعودی عرب باقاعدہ پاکستان سے ارطغرل ڈرامہ کو پاکستان میں نشر نہ کرنے کے لیے بھی کہہ چکا ہے۔ یاد رہے کہ اس ڈرامے کو نشر کرنے کے پیچھے وزیراعظم عمران خان کی خواہش شامل ہے۔ اس ڈرامے میں کون سی ایسی بات ہے جو سعودی عرب کو ناگوار ہے؟ اس کا جواب تاریخ پر نظر رکھنے والے افراد جانتے ہیں۔ سعودی عرب میں برسراقتدار خاندان دراصل ترکوں کی عثمانی خلافت کے خلاف غداری کا ارتکاب کرتے ہوئے برطانوی سامراج سے ہم آہنگی کے ساتھ برسراقتدار آیا تھا۔ ارطغرل ڈرامہ دراصل عثمانی خلافت کی داستان بیان کرتا ہے، جسے آخر کار اس مرحلے پر آ کرختم ہونا ہے کہ اس خلافت کے خاتمے کے محرکات کیا تھے اور کن لوگوں نے اسلام دشمنوں کے ساتھ مل کر بغاوت اور غداری کا ارتکاب کیا، جس کے نتیجے میں عالم اسلام ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدر اردگان اسی خلافت کی بحالی کا ارمان اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بہت بدل چکی ہے اب ویسی خلافت تو بحال ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا، تاہم عالم اسلام کی معنوی، سیاسی اور معاشی قیادت کی تمنا بہت سے دلوں میں ہوسکتی ہے۔ خود سعودی خاندان کی خواہش بھی یہی ہے کہ اسے عالم اسلام کا روحانی و سیاسی مرکز اور محور کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ترکی کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے روابط بھی سعودی عرب کو گوارا نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر سعودی عرب اور ترکی کے مابین ایک تناﺅ کی کیفیت موجود ہے۔ اس کیفیت میں سعودی عرب کی خواہش یہ ہے کہ ہم سو فیصد اپنا وزن سعودی پلڑے میں ڈال دیں۔

سعودی عرب کی ایران سے مخاصمت بھی کوئی چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ آشکار یہی معرکہ آرائی ہے۔ پاکستان نے عملی طور پر ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے، زبانی طور پر پاکستان نے ضرور غیر جانبدار رہنے کا نعرہ لگا رکھا ہے، لیکن سعودی عرب میں پاکستان کے سابق ملٹری چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی اور سعودی حمایت یافتہ یمنی گروہ کے سفیر کی پاکستان میں ابھی تک پذیرائی اور اس سے وزیراعظم کی خصوصی ملاقاتیں یہ امر واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ ایران کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل نہ کرنا اور سعودی عرب کی مسلسل ناز برداری ہماری غیر جانبداری کی حقیقت کو واضح کرتی ہے۔ اس سب کے باوجود اگر سعودی عرب کشمیر کے مسئلے پر ہماری زبانی حمایت کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہو تو پھر آخر کار ایک دن دل کی بات زبان پر آ ہی جانا تھی۔ یہی کچھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سرزد ہوا ہے۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬