تحریر: ثاقب اکبر
قم المقدسہ (ایران) میں 23 اور 24 نومبر 2014ء کو انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف «علماء اسلام کے نقطۂ نگاہ سے انتہا پسند اور تکفیری گروہوں» کے عنوان سے ہونے والی عالمی کانفرنس کے داعی اور میزبان آیات عظام ناصر مکارم شیرازی و جعفر سبحانی ہیں ، یہ ایک غیر سیاسی اور خالص علمی کانفرنس ہے، جس میں 83 ممالک سے ممتاز علمائے اسلام شرکت کر رہے ہیں۔
کانفرنس کے ترجمان حجت الاسلام ڈاکٹر علی زادہ موسوی نے اس کانفرنس میں پورے عالم اسلام سے 300 سے زیادہ علمائے اسلام اور مفتیان کرام کے شریک ہونے خبری دی ہے ۔
ان علمائے کرام کا تعلق مختلف اسلامی مکاتب فکر سے ہے۔ علاوہ ازیں ایران کے طول و عرض سے بھی سنی اور شیعہ علمائے کرام کانفرنس میں موجود ہوں گے۔ کانفرنس کے لئے 700 مقالات پوری دنیا سے موصول ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ 1000 کے قریب مقالات کا خلاصہ بھی کانفرنس کے مرکز تک پہنچ چکا ہے۔ کانفرنس کے ذمے دار علمائے کرام نے موضوع کی مناسبت سے 35 کتب تیار کی ہیں جو شرکاء کو پیش کی جائیں گی۔ ان کتب میں عالم اسلام کے جید علماء کرام کے افکار و نظریات شامل کئے گئے ہیں۔ بعض اکابر علماء کی تصنیفات کو بھی نئے سرے سے شائع کیا گیا ہے۔
تقریب مذاہب اسلامی کے عالمی مرکز کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ محسن اراکی کے مطابق یہ کانفرنس عالم اسلام کی پوری تاریخ میں اپنی نوعیت کا ممتاز علمائے کرام کا ایک منفرد علمی اجتماع ہوگا۔ اس کی مثال ماضی کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ دنیا بھر کے مختلف مکاتب فکر کے اسلامی دانشور اور علماء کسی ایک موضوع پر غور و فکر اور لائحہ عمل طے کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ کانفرنس میں تکفیری تنظیموں، اداروں اور تکفیریت کی کوششوں کی حقیقت و ماہیت کا جائزہ لیا جائے گا، تکفیریوں کے عقائد کا بھی تجزیہ کیا جائے گا، تکفیریوں کی روش اور طریق کار پر بھی غور کیا جائے گا، نیز اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ تکفیریت اور تکفیریوں کا مقابلہ کس طرح سے کیا جائے۔
آیت اللہ اراکی کا کہنا تھا کہ عصر حاضر میں جس پیمانے پر تکفیریت پوری طاقت اور لاؤلشکر کے ساتھ سامنے آئی ہے اور جس طرح سے اسے بعض حکومتوں اور استعماری طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہوچکی ہے، اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلام پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا دین بن چکا ہے اور اسلام دشمنوں کے لئے یہ امر بہت تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ خاص طور پر مغرب میں اسلام کی مقبولیت دیگر تمام ادیان کی نسبت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ مغرب پر حاکم طاقتیں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اپنے لئے خطرہ تصور کرنے لگی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مشرق وسطٰی میں خاص طور پر اسلام کی طرف مسلمانوں کی بازگشت اور بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری نے صہیونی حکومت کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اس لئے وہ اسلامی بیداری کو اپنے اصل ہدف سے منحرف کرنے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کر رہی ہے۔ اسلام دشمنوں کے لئے اسلام کی مقبولیت اور اسلام کے اثر و رسوخ کو روکنے کا سب سے آسان نسخہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور مختلف مسالک کی بنیاد پر انھیں ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کرنا ہے۔ تکفیریت عصر حاضر میں اسلام دشمن عناصر کے ان مقاصد کو پورا کر رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تکفیریت کا ہر وار مسلمانوں پر ہی پڑتا ہے۔ تکفیری عناصر مسلمانوں ہی کو بموں اور گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تمام تر دہشت گردی کا ہدف مسلمان بنے ہوئے ہیں۔ مسلمان علماء محفوظ ہیں نہ عوام۔ یہی نہیں بلکہ اسلامی شعائر اور اسلام کے نام پر قائم شدہ مراکز کو بھی تکفیری عناصر تباہ کر رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؑ کے مزارات بھی ان سے محفوظ نہیں۔ دنیا بھر میں اولیاء، عرفاء اور صوفیاء کے مزارات پر بھی تکفیریوں کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کی سرزمین بھی انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں لہو لہان ہے۔ پاکستان کی معیشت ان عناصر سے گہرے زخم کھا چکی ہے۔ خوف اور وحشت کے سائے پورے پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔ اپنے ہی ملک میں لاکھوں عوام پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مذہبی اجتماعات محفوظ ہیں اور نہ مذہبی تقریبات۔
سوشل میڈیا کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو ان عناصر نے نفرتوں کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر آج تقریباً تمام مسالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلحے کی قوت سب کے پاس موجود نہ ہو، لیکن اس میں شک نہیں کہ نفرتوں اور عداوتوں کی آگ بھڑکانے کا ہنر سب نے سیکھ رکھا ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال دیگر کئی مسلمان ملکوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں درد مند اور امت کے لئے سوزدل رکھنے والے علمائے کرام اور دانشوروں کا کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اور اس صورت حال پر غور و فکر کرکے اس کے ازالے کی تدبیر کرنا حوصلہ افزا پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ کانفرنس کے داعی آیت اللہ العظمٰی مکارم شیرازی نے بجا طور پر کہا ہے کہ تمام اسلامی مکاتب فکر میں انتہاء پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس انتہا پسندی کی وجہ سے عالم اسلام داخلی اختلافات اور جنگوں میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس لئے تمام علمائے اسلام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس انتہا پسندی کو روکنے کی کوشش کریں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی ذمہ دار علمائے کرام اس صورت حال کی طرف متوجہ ہیں اور وہ انتہا پسندی اور تکفیریت کی روک تھام کے لئے ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام اپنا کردار ایک تسلسل کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں قومی اور مقامی سطح پر اتحاد امت کے حوالے سے کئی ایک کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کئے جاچکے ہیں۔ ایک عالمی اتحاد امت سیمینار اپریل 2014ء میں بھی منعقد کیا گیا تھا، جس کی سرپرستی آیت اللہ العظمٰی شیخ ناصر مکارم شیرازی نے کی تھی اور کانفرنس میں خاص طور اپنا ایک وفد بھی بھیجا تھا، جس کے سربراہ حجۃ الاسلام ڈاکٹر علی زادہ موسوی تھے۔
اس کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اگر ہم قرآن اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلیں تو پوری امت متحد ہوجائے گی، امت کے اتحاد سے ہی ہر سازش ناکام ہوگی، اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ضروری ہے کہ اغیار کو باور کرایا جائے کہ اسلام کا پیغام رحمت ہے اور یہ دین پوری انسانیت کی فلاح کے لئے آیا ہے۔ عالم اسلام میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً فرقہ واریت دہشت گردی کے روپ میں نت نئے مسائل پیدا کر رہی ہے ۔ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کا رجحان انتہا پسندی کا ذریعہ بن رہا ہے، اس لئے عالم اسلام کی معتبر دینی شخصیات، دینی جماعتیں، اسلامی تحریکیں اس فتنہ کے تدارک کے لئے اور امت کے انتشار کے خاتمے کے لئے متحد ہوجائیں۔ دل آزار، نفرت آمیز، اشتعال انگیز نعروں اور جذبات سے مکمل احتراز کیا جائے، تمام مسالک کے اکابرین کا احترام کیا جائے اور ایسی ہر تقریر و تحریر سے گریز کیا جائے جو کسی بھی مکتب فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہے۔
ملی یکجہتی کونسل جس میں پاکستان کے تمام مسالک کے نمائندگان شریک ہیں، کی طرف سے نیز مذکورہ سیمینار کے تمام شرکاء کی تائید کے ساتھ منظور کئے جانے والے درج بالا اعلامیہ میں جس موقف کا اظہار کیا گیا ہے وہ 23 اور 24 نومبر کو قم المقدسہ میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے مقاصد سے پوری طرح سے ہم آہنگ ہے۔ نیز جو وفد پاکستان سے اس کانفرنس میں شریک ہو رہا ہے اس میں شامل بیشتر علمائے کرام مذکورہ سیمینار میں بھی موجود تھے۔ اس پس منظر میں ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان سے شریک ہونے والے علمائے کرام عالمی سطح پر ایک اسلامی موقف تک پہنچنے میں اپنے تجربات کی روشنی میں بہت اہم کردار ادا کریں گے اور ان کی کوششوں کا پاکستان اور عالم اسلام پر بہتر اثر پڑے گا۔