رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنے تفسیر کے درس میں اس بیان کے ساتھ کہ اہل بیت علیہم السلام کے خاطر غم و خوشی معاشرے کو متمدن و مہذب بناتا ہے بیان کیا : وہ معاشرہ جو اشک و درد و غم سے تشکیل پاتا ہے وہ محبت و ہمدردی سے لبریز ہوتا ہے ۔
انہوں نے اپنے تفسیری درس کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے محبت و ہمدردی سے متشکل معاشرہ کو اهل بیت علیهم السلام کے معاشرے سے حاصل کیا ہوا جانا ہے اور بیان کیا : وہ معاشرہ جس میں آنسو و مجلس و مصائب ہے وہ ہمدرد و با محبت معاشرہ ہے نہ وہ معاشرہ جس میں چور ، جھوٹھے ، فتین ہوں ؛ ہمدرد معاشرے میں کبھی چاقو نہیں چلایا جانا اور یہ مجلس و ماتم و مصائب کے اہم برکات میں سے ہے ۔
قرآن کریم کے مشہورو معروف مفسر نے بیان کیا : بعض روایات میں بھی اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ کربلا کے برکات میں سے ہے کہ معاشرے کو ہمدرد و محبت والا بناتا ہے ؛ جیسا کہ فرمایا ہے کہ ہمارے ولادت و خوشی میں خوشی منانا اور ایک دوسری طرف یہ کہ یہ ہمدرد و با محبت معاشرہ ۔ یہ معاشرہ خوش و خرم ہے ۔ یہ معاشرہ کہ جس میں آنسو اور خوشی دونوں اپنی جگہ پر ہو وہ ہمدرد و با محبت معاشرہ ہوتا ہے اور اس میں بدماشی و غنڈہ گردی نہیں ہائی جاتی ہے ۔ یہ دو وجوہات یعنی اہل بیت علیہم السلام کی وجہ سے خوشی و غم معاشرے کی تربیت کرتا ہے اور معاشرے کو مہذب اور متمدن بناتا ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس بیان کے ساتھ کہ اگر محبت و الفت و خوشی معاشرے میں ہو تو اس معاشرے میں تشدد کا وجود نہیں ہوتا وضاحت کی : اہل بیت علیہم السلام کی تحریک چاہے ان کا غم ہو یا ان کی خوشی کی مناسبت ہو معاشرے کو ہداہت کرتا ہے «یحزنون لحزننا» اس کا کیا اثر ہے ؟! «یفرحون لفرحنا» اس کا کیا اثر ہے ؟! یہ دو اسباب واقعا معاشرے کی تربیت کرتی ہے ، اور حقیقتا سماج کو مہذب و متمدن بناتا ہے ، تشدد محبت و عطوفت اور خوشی کے نہ ہونے کی وجہ سے وجود میں آتا ہے ۔