رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شھر بنارس کے امام جمعہ اور حوزہ علمیہ ایمانیہ بنارس کے ھادی حجت الاسلام والمسلمین سید محمد ظفر الحسینی نے محرم ۱۴۳۸ کی آمد پر اپنے ارسال کردہ پیغام عزا میں عزاداری سرکار سیّد الشّھداء (ع) کو انقلابی توانائی کا مالک قرار دیا ۔
رسا نیوز کو موصول ہونے والا متن مندرجہ ذیل ہے:
اللہ کی حمدو ثنا، جس کا سجدہ حسین ابن علی(ع) نے زیر خنجر ادا کیا ۔
محمد وآل محمد (ص) پر درود و سلام جنھوں نے اللہ کی راہ میں بے مثال عظیم قربانیاں پیش کیں اوردین کی حفاظت کی ۔
مومنین کرام ! عزاداران امام مظلوم !!
محرم الحرام ۱۴۳۸ھ کی آمد آمد ہے، ہمیں لبّیک یا حسین(ع) لبّیک یا حسین (ع) کی پر جوش صدائوں کے ساتھ ایک بارپھر ایّام عزا کا استقبال کرنا ہے اور اس جذبہ کے ساتھ سرکار سیّد الشّھداء(ع) کی عزا داری کا آغاز کرنا ہے کہ اس سال ہم پورے جوش و خروش ،جذبہ ایمانی اور خلوص دل کے ساتھ ایسی عزاداری کریں گے جیسی عزا داری ہمارے ائمّہ معصومین (ع) نے ہم سے چاہی ہے، جومطلوب پروردگارہے اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہی، جو رسول اکرم (ص) اور امیر المومنین (ع) کے غموں کا مداوا ہے، جو شہزادی کونین (س) کے زخموں کا مرہم ہے اورجو ثانی زہراء (س) اور امام سجاد (ع) کا دلی ارمان ہے۔
یعنی اس سے پہلے ہم نے اس فریضہ کو صحیح طرح انجام دیا ہو یا نہ انجام دیا ہو لیکن اب یہ عہد کریں کہ اس سال اور آئندہ اب ہم اس شان سے عزاداری کریں گے کہ وہ پیغام کربلا کی آئینہ دار ہو، مقصد قربانی حسین (ع) کی نشرو اشاعت کا وسیلہ ہو اور اقوام عالم کو مکتب کربلا سے روشناس کر انے کا ذریعہ بنے ۔
یاد رکھئے ! عزاداری سرکار سیّد الشّھداء (ع) اپنے تمام افادی پہلووں کے ساتھ ایک ایسی مؤثرتحریک ہے جو نہ صرف افراد کو بلکہ پورے معاشرے کو بدلنے کی ا ور انسان کے ظاہر و باطن میں انقلاب برپا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حالات اور زمانے نے ہمیں جس رنگ میں ڈھال دیا ہے اورآج ہم جس طرح کی انفرادی و اجتماعی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ قرآن و اہلبیت (ع) کے نقطہ نظر سے ہرگز پسندیدہ نہیں ہی، اس لئے اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس تبدیلی کے لئے ہمارے پاس عزاداری جیسی عظیم نعمت موجود ہے۔
یقینا ہم مظلوم کربلا(ع) کے عزادار ہیں،عزاداری ہماری روح وجان ہے، ہم کسی قیمت پرعزاداری سے دست بردار نہیں ہوسکتے، پوری تاریخ میں ہمارے بزرگوں نے بھی عزاداری کی ہے، آج ہم کر رہے ہیں اورانشاء اللہ آئندہ ہماری آنے والی نسلیں یہ فریضہ انجام دیں گی۔
لیکن قابل غور یہ بات ہے کہ ہم عزاداری سے وہ بڑے بڑے فائدے کیوں نہیں حاصل کر پا رہے ہیں جو ہمیں ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہئے تھی، جنھیں حاصل کر نے کے بعدہمیں ایک ذی علم، باشعور، باوقار، منظم، متّحد، طاقتور اور مثالی قوم بن کر سامنے آنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
اگر انصاف پسندی سے دیکھا جائے تو اس کی منطقی وجہ یہی ہے کہ ہم عزاداری کی روح، اس کی معنویت اور اس کے مقصد وافادیت کے پہلوسے بہت دور ہو گئے ہیں یعنی ہم عزاداری تو کرتے ہیں لیکن اس کی حیثیت یا تومحض رسم ورواج کی ہو کر رہ گئی ہے یا اس میں حد درجہ مادّی اور دنیوی پہلو شامل ہوگئے ہیں جس کی بنا پر ہم عزاداری کے عظیم فوائد سے محروم ہیں اور اس کے الہی فیوض و برکات ہمارے شامل حال نہیں ہو پا رہے ہیں ۔
ایسے میں ہماری سب سے پہلی کوشش یہ ہو نا چاہئے کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کے تمام پہلوئوں پر غور کریں اور تمام وجوہ و اسباب کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد فورا اپنے غلط طرز فکر اورغیر صحیح روش و طریقہ کار کی اصلاح کریں تا کہ حسین مظلوم کے سچے عزادار بنیں نیزاپنی پرخلوص اور با مقصدعزاداری کے ذریعہ امام کی نصرت کا فریضہ انجام دے سکیں اور یہ عزاداری ہماری دنیا و آخرت دونوں کو سنوارنے اور کامیاب بنانے کا ذریعہ قرار پائے۔
مومنین کرام ! اگر ہم امام مظوم (ع) کے سچے عزادار بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سلسلے میں چند باتوں کا خیال ہر قیمت پر رکھنا ہو گا :
٭ ہماری پہلی کوشش یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے دلوں میں موجود محبت اہل بیت (ع) کے جذبے کو جِلا بخشیں اور اپنی ایک ایک سانس کو عشق حسین (ع) میں اس طرح بسا لیں کہ پھردنیا داری اور دنیوی اغراض و مقاصد عزاداری میں شامل نہ ہو نے پائیں اور ہم اس فریضہ کو صحیح شکل میں انجام دے کر امام زمانہ (عج) کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں۔
٭ یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ امام کا پاک و پاکیزہ لہو کس مقصد لئے بہا ہے؟ اور فرزند رسول(ص) کے خون ناحق کے ایک ایک قطرے کی قدرو قیمت کیا ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس خون کی عظمت وحرمت کا پاس نہ رکھنے کی بنا پر اپنے نا مناسب اعمال و افعال اور غلط سرگرمیوں سے امام کے حق میں ظلم و خیانت کے مرتکب ہوں اور شہزادی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔
٭ اگر ہم اس حقیقت کو دل کی گہرائی سے مانتے ہیں کہ امام مظلوم (ع) کی آواز استغاثہ آج بھی فضا میں گونج رہی ہے اور امام (ع) ہمیں اپنی نصرت کے لئے پکار رہے ہیں تو سچ بتائیے ہمارے لئے لبّیک کہنا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر کربلا میں ہوتے تو امام (ع) کے قدموں پر اپنی جان نثار کر تی، اس وقت امام (ع) کی مدد ونصرت یہ ہے کہ ہم امام (ع) کے مقصد قربانی پر آنچ نہ آنے دیں اورانفرادی و اجتماعی طور پر اپنے اعمال و افکار بلکہ اپنے پورے وجود سے مکتب کر بلا کی پاسداری و حفاظت کریں۔
٭ نام حسین (ع) ہمارے لئے سعادتوں کی ضمانت ہے ،صدائے یا حسین (ع) ہمارا ابدی شعارہے لیکن اس نام کوزبان پر لانے کے کچھ تقاضے ہیں ،اسے جوش ملیح آبادی کے الفاظ میں سنئے :
خود کو تیغوں کی طرف ریلو تو لو نام حسین (ع) مسکراکر آگ سے کھیلو تو نام حسین (ع)
جملہ ممکن سختیاں جھیلو تو لو نام حسین (ع) اوّل اپنا امتحاں لے لو تو لو نام حسین (ع)
ہاں !پرکھ لو خوب ہمّت کو تو لو نام حسین (ع)
جانچ لو اپنی شرافت کو تو لو نام حسین (ع)
آخر میں امام زمانہ (ع) کی بارگاہ میں تعزیت اور یہ دعا کہ اللہ ہم سب کوامام (ع) مظلوم کا سچا عزادار قرار دے ، آمین ۔
والسلام
سید محمد ظفر الحسینی
امام جمعہ بنارس ھندوستان ۔
28 ذی الحجہ 1437 ھ ق
۹۸۸/ن