ٰتحریر: ڈاکٹر شاہ
انسانی تاریخ میں متعدد ایسی تحریکیں اٹھی ہیں، جن کے بارے زیادہ معلومات میسر نہیں ہوسکیں۔ ماہرین سماجیات کے مطابق انسانی معاشرے میں اٹھنے والی زیادہ تر تحریکیں دو اہداف کی خاطر وجود میں آتی ہیں۔ یا یہ تحریکیں رائج نظام اقتدار کو تبدیل کرنے کی خاطر وجود میں آتیں ہیں، اس نظام کو چیلنج کرتیں، اس کے خلاف مبارزہ (سیاسی، عسکری) کرتیں اور اس نظام کو سرنگوں کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا یہ تحریکیں تہذیب و ثقافت کی اصلاح کے لیے اٹھتی ہیں۔ انسانی معاشروں میں اٹھنے والی بعض تحریکیں ان میں سے کسی ایک ہدف کے لئے تو بعض دوسری بیک وقت مذکورہ بالا دونوں اہداف کے حصول کے لئے وجود میں آتی ہیں۔ انسانی تاریخ بالخصوص تاریخ اسلام میں سب سے بڑی اور موثر تحریک تحریک کربلا بیک وقت ان دونوں اہداف کے لئے وجود میں آئی۔ بانی تحریک کربلا امام حسین علیہ السلام کا یہ جملہ کہ "مثلی لا یبایع مثلہ" اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا ایک ہدف یزید جیسے ظالم و جابر حاکم کے اقتدار کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا اور اس وقت کے معاشرے کو اس علم کو بلند کرنے کی دعوت دینا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا فرمان کہ میں نانا کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک تہذیب و ثقافت کی اصلاح کے لئے تھی۔
پس انسانی معاشرے میں اٹھنے والی اکثر تحریکیں یا اقتدار کی مخالف تحریکیں ہوتی ہیں یا اقدار کی اصلاح کی تحریکیں ہوتیں ہیں۔ پہلی قسم کی تحریکیں سیاسی تحریکیں تو دوسری قسم کی تحریکیں اصلاحی تحریکیں کہلاتی ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی مراکش، تیونس اور اسپین میں اٹھنے والی المرابطون اور الموحدین نامی تحریکیں۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں نائجیریا میں شیخ عثمان کی تحریک، اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہی محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جو کہ بدعتوں اور خرافات کے خلاف اٹھی، لیکن محمد بن سعود کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بعد اپنی خاص آئیڈیالوجی کی بنا پر تجاوز اور قتل و غارت گری کی بدترین مثال بنی، انیسیوں صدی میں سید جمال الدین کی تحریک، احمد ابن عبداللہ کی سوڈان میں تحریک، انیسویں صدی عیسوی میں ہی الجزائر کے الحاج عمر کی تحریک، ہندوستان میں شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک، مصر میں حسن البنا کی تحریک اور بیسویں صدی کے اواخر میں روح اللہ خمینی کی تحریک، اسلامی دنیا کی چند مشہور سیاسی یا اصلاحی تحریکوں میں سے ہیں۔ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کے علاوہ مذکورہ بالا تقریباً تمام تحریکیں جو اسلامی دنیا میں وجود آتی رہیں ہیں، فکر و عمل کے اختلاف کے باوجود مذکورہ بالا دونوں اہداف میں سے کسی ایک ہدف یا بیک وقت دونوں اہداف کی حامل رہی ہیں، یعنی یا یہ سیاسی تحریکیں تھیں یا اصلاحی یا دونوں سیاسی اور اصلاحی اہداف رکھتی تھیں۔
ان تحریکوں کے نتیجے میں مسلمان کہیں استعمار و استبداد کے خلاف صف آرا ہوئے تو کہیں اپنی تہذیب و ثقافت کی اصلاح کی کوشش کی، یہ تحریکیں کہیں بیداری امت کا باعث بنیں تو کہیں وحدت امت کا موجب قرار پائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تحریکوں نے اپنی آئیڈیالوجی کی طاقت پر ذیلی تحریکیں جنم دیں، جو بعد میں وقت کے تقاضوں کے پیش نظر منظم اور منسجم جماعتوں کی شکل اختیار کرتی گئیں، جیسے حسن بنا کی تحریک اخوان المسلمین نے ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کر لی۔ مصر میں ہی اسی نظریئے سے متاثر صالح سریہ کی منطقہ التحریر الاسلامی، شکری المصطفٰی کی جماعت المصطفٰی، پاکستان میں ابو الاعلٰی مودودی کی جماعت اسلامی وغیرہ۔ یہ جماعتیں اپنی مادر تحریکوں کے نظریہ کی بنیاد پر استعمار و استکبار مخالف سیاسی اور اصلاحی تحریکوں کے زمرے میں آتی ہیں، جنہوں نے بعد میں وقت کے تقاضوں کے پیش نظر جماعتی اور تنظیمی شکل اختیار کر لی۔ لیکن دوسری طرف متشدد اور خاص قسم کے نظریات کے حامل محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جسے محمد بن سعود کی سیاسی و عسکری طاقت میسر تھی، نے بھی مختلف ممالک میں اپنی ذیلی چھوٹی تحریکوں اور جماعتوں کو جنم دیا، جن میں سے الجزائر میں جبھہ اسلامی، مصر میں حزب التکفیر قابل ذکر ہیں۔ مادر اسلامی سیاسی اصلاحی تحریکوں نے ہند و پاکستان میں بھی اپنی ذیلی تحریکیں، جماعتیں اور منظم گروہ جنم دیئے، جیسے سید جمال الدین کی تحریک سے متاثر علی برادران کی تحریک خلافت، علامہ اقبال کی تحریک پاکستان، تحریک دیوبند، حسن بنا کی اخوان المسلمین سے متاثر ابو الاعلٰی مودودی کی جماعت اسلامی، محمد بن عبد الوہاب کی فکر سے متاثر سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی وغیرہ۔
یہ تمام تحریکیں اور ان کی ذیلی جماعتیں فکر و عمل کے باہم اختلاف کے باوجود ایک نکتے پر متفق تھیں اور وہ نکتہ استعمار کا مقابلہ اور امت مسلمہ کی بیداری و اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ عبد الوہاب کی اپنی تحریک اور اس کی فکر سے متاثر گروہوں اور ذیلی جماعتوں نے مذہبی اور فرقہ کی بنیاد پر مخالف فرقوں اور مذاہب کے ساتھ پیکار کو سرلوحہ قرار دیا۔ پاکستان میں ضیاءالحق کی حکومت نے اس فکری انحرافی حرکت کو مزید جلا دی اور عبد الوہاب کی فکر سے متاثر گروہ پاکستان میں مزید مضبوط ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق ضیاءالحق کے دور حکومت کے آخر تک پاکستان میں 8000 رجسٹرڈ مدارس اور تقریباً 25000 غیر رجسٹرڈ مدارس فعال ہوچکے تھے، جن میں سے اکثریت اسی تکفیری عبد الوہاب کی فکر کے حامل مدارس کی تھی، جو ان تکفیری گروہوں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کو نرسری فراہم کرنے کا کام کرتے تھے۔
ماہرین سماجیات کے مطابق ہر معاشرہ ایک خاص حد تک معاشی، عسکری یا ثقافتی پریشر برداشت کرسکتا ہے، جب پریشر اس حد سے گزرتا ہے تو اس معاشرے میں بغاوت جنم لیتی ہے۔ دسویں صدی عیسوی میں جب قرطبہ میں ایک عیسائی راہب کو پیامبر اسلام کی شان میں اہانت کے جرم میں لٹکا دیا گیا اور اس کے پیروکاروں کو قید و بند کی صعوبتوں اور تشدد اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا تو چند ہی سال بعد قرطبہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شہادت طلبانہ تحریک نے جنم لیا، جس نے ایک طرف مسلمانوں پر حملے شروع کئے تو دوسری طرف اس تحریک کے بانیوں نے اسلام کو ایک متشدد اور بے رحم دین کے طور پر پیش کیا، جو رفتہ رفتہ عیسائی دنیا کے یقین میں بدلتا گیا اور اسلام کی مغرب زمین پر شکست کا سبب بنا۔ عیسائیوں کی اسلام کے مقابلے میں یہ تحریک ایک مزاحمتی تحریک تھی، جو بعد میں ایک اسلام مخالف تہذیب میں بدل گئی۔
ایسی مزاحمتی تحریکیں دنیا کے اکثر ممالک میں وجود میں آئیں، جیسے لبنان میں اسرائیل کے مقابلے میں امل نامی مزاحمتی تحریک جو بعد میں جماعتی شکل اختیار کرتی ہے، ایران میں شہید نواب صفوی کی مزاحمتی تحریک، عراق میں صدام کے مقابلے میں باقر الصدر کی مزاحمتی تحریک، جو بعد میں ایک سیاسی تحریک اور پھر ایک جماعت کی شکل اختیار کر گئی۔ پاکستان میں جب محمد بن عبد الوہاب کے فکری سپوتوں نے دوسرے مذاہب پر پریشر بڑھایا اور ان کے قتل و کشتار کو روز کا معمول بنا دیا تو ایسے میں چند مزاحمتی تحریکیں یہاں بھی وجود میں آئیں۔ ان تحریکوں کا تنہا مقصد ظلم کے مقابلے میں اپنی قوم کی بقا تھا۔
علی ناصر صفوی ایسی ہی مزاحمتی تحریکوں میں سے ایک کے بانی تھے، جو تکفیری اور متشدد فکر کی حامل جماعتوں اور گروہوں کے عام مسلمانوں پر ظلم و ستم کے مقابلے میں وجود میں آئی۔ گو شہید علی ناصر صفوی کی تحریک ان کی شہادت کے بعد شہید نواب صفوی کی مزاحمتی تحریک کی مانند بہت کمزور یا ختم ہوگئی، لیکن شہید نواب کی تحریک کی مانند ایک فکر ضرور دے گئی، جو آنے والے کسی بھی دور میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے شہید نواب صفوی کی تحریک ایران میں انقلاب اسلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک کی تفصیلات شاید کبھی میسر نہ ہوسکیں، لیکن ان کی زندگی کی چند اہم خصوصیات رفتہ رفتہ ضرور حریت پسند نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بنیں گیں۔ مزاحمتی تحریکوں کا ایک مختصر پس منظر بیان کرنے کے بعد ہم شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک اور ان کی چند ایک ذاتی خصوصیات پر مختصر بات کرتے ہیں۔
فرض شناسی اور بروقت فیصلہ شہید علی ناصر صفوی کی شخصیت کا امتیاز تھا۔ علی ناصر صفوی کی زندگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو شہید کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، زمانہ طالب علمی، مدرسہ دینیہ کی تعلیم اور مبارزاتی زندگی۔ دنیا کی جتنی بڑی شخصیات کی زندگی کا میں نے مطالعہ کیا ہے، ان میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ عظیم شخصیات کی زندگی چند ایک مختصر ادوار پر مشتمل ہوتی اور وہ ادوار ایک دوسرے سے متصل اور جلد ہدف پر منتج ہو جاتے ہیں۔ شہید علی ناصر نے زمانہ طالب علمی میں جو کہ معمولاً ادراک کا مرحلہ ہوتا ہے، دین کی خدمت کو اپنی ذمہ داری قرار دیا۔ علی ناصر بیچلر کرنے کے بعد دینی مدرسے میں داخلہ لے لیتے اور تعلیمات مکتب محمد و آل محمد (ص) سے خود کو لیس کرنے کے بعد مکتب کی خدمت کو اپنا ہدف قرار دیتے ہیںو لیکن دوران تحصیل جب شہید مکتب کے وجود کی بقا کو خطرہ محسوس کرتے ہیں تو فوراً ایک فرض شناس فرد کی طرح اپنی اگلی ذمہ داری متعین کرتے اور میدان عمل میں اتر آتے ہیں۔
شہید علی ناصر کے بقول جب مکتب فزیکلی محفوظ نہ ہو تو اس کے رشد یا کیس دوسری خدمت کا تصور بعید ہے۔ میدان عمل میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ علی ناصر اپنے اہداف کو پا لیتے اور اپنے خالق سے جا ملتے ہیں۔ اپنی اس ذمہ داری کے تعین میں علی ناصر نے کسی راہنما، مشیر یا شرائط میسر ہونے کا انتظار نہیں کیا، یہ وہ نکتہ ہے جو شہید علی ناصر کو باقی تمام سماجی و قومی شخصیات سے ممتاز کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں معمولاً ذمہ داری کے ادراک کے بعد شرائط اور امکانات کے میسر ہو جانے تک انتظار کا تصور بہت عام ہے، جبکہ شہید علی ناصر صفوی نے اس تصور کے برعکس ذمہ داری کے ادراک کے بعد تن تنہا بغیر امکانات کے فوری میدان میں کود جانے کا فیصلہ کیا۔ شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک کی کامیابی کی بنیادی وجہ ان کا یہی بروقت فیصلہ اور خدا کے سوا کسی پر تکیہ نہ کرنا تھا۔
شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک دینی اصولوں اور اقدار پر مبنی تحریک تھی۔ مزاحتمی تحریکوں کے معمولاً اپنے اصول ہوتے ہیں، مزاحمتی تحریکیں اضطرار و اجبار کی حالت میں فعالیت کر رہی ہوتی ہیں، ایسے میں مستقل اصولوں اور قوانین کی پیروی کرنا عام طور پر ایک مشکل کام ہوتا ہے، لیکن شہید علی ناصر کی تحریک اسلام کے اس سنہری اصول حق با وسیلہ حق کی مظہر تھی۔ موجودہ دور میں اگر عالم اسلام پر نظر دوڑائی جائے تو حق کے متعدد دعویدار منظر نامے پر نمودار ہوتے ہیں اور خود کو تاریخ میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کا فکری وارث قرار دیتے، اسلامی معاشرے میں اصلاح اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی طرف بازگشت کو اپنا نعرہ قرار دیتے ہیں، لیکن جب ان تحریکوں کے عمل کو دیکھتے ہیں، جن میں بچوں کو ذبح کرنا، خواتین پر تجاوز، مذہبی مقامات کے بے احترامی، نہتے لوگوں پر صرف اس لئے ظلم کرنا کہ وہ ان کے مذہب کو قبول نہیں کرتے، جبکہ شہید علی ناصر صفوی کی مزاحمتی تحریک اس طرح کے کسی غیر انسانی اور غیر اسلامی اصول یا روش کی قائل نظر نہیں آتی، جو کہ موجودہ دور میں مزاحمتی تحریکوں کے لئے رول ماڈل ہے۔ شہید علی ناصر کی تحریک میں اسلامی اصولوں کی یہ عظیم پاسداری نوجوان نسل کے لئے بہت سبق آموز ہے۔
شہید علی ناصر صفوی کی ایک اور خصوصیت ان کا اپنی مزاحمتی تحریک کے اراکین کی سیاسی اور عقیدتی تربیت کا اہتمام تھا، مزاحمتی تحریکیں اکثر مختصر دورانیے کے لئے اور اضطرار و اجبار میں وجود میں آنے کیوجہ سے اپنے اراکین کی عقیدتی و سیاسی تربیت پر توجہ نہیں دے پاتیں، جس کی وجہ سے ان مزاحمتی تحریکوں میں انحراف و تزلزل کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ شہید علی ناصر صفوی نے تحریک کے اراکین کی تربیت کا باقاعدہ ایک نظام ترتیب دے رکھا تھا، جس کے مطابق علماء کرام و دانشوروں سے استفادہ حاصل کیا جاتا، سلسلہ وار نشستوں کا اہتمام کیا جاتا، تاکہ تحریک کے اراکین مضبوط عزم و ارادے کے ساتھ مضبوط عقیدے اور کردار کے حامل ہوں، جو کہ مزاحمتی تحریکوں کو ہدف تک رسائی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ مزاحمتی تحریکوں میں یہ امتیاز بھی شہید علی ناصر صفوی کی تحریک کو دوسری چند مزاحمتی تحریکوں سے ممتاز کرتا ہے۔
شہید علی ناصر صفوی سادگی اور پرہیز گاری کا مجسمہ تھے، وہ کردار و عمل میں ایک کامل انسان تھے۔ گھر میں ضرورت کی چند چیزوں کے سوا کچھ نہ ہوتا، ایک دفعہ جب دوست گھر آئے تو شہید پانی کے جگ کے ساتھ ایک گلاس اور ایک چائے کا کپ لے آئے، دوست نے پوچھا ناصر بھائی گھر میں کوئی اور گلاس نہیں رکھا کیا؟ تو شہید بولے ہماری ضرورت دو ہی گلاس ہیں، ایک آپ کی بھابی سے گر کر ٹوٹ چکا تو دوسرا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ شہید کی گاڑی کے آڈیو پلئیر میں اکثر نوحے اور تلاوت چلتے رہتے اور شہید تمام راستے گریان نظر آتے، جب آڈیو پلئیر بند ہوتا تو شہید زیادہ تر خاموش رہتے اور فکر کرتے رہتے۔ سفید لباس اور بلیک ویسٹ کوٹ کو سادگی کی علامت، سفید رنگ لباس کو مستحب سمجھتے اور اسی کو ترجیح دیتے، زیادہ تر ایک یا دو لباس ہوتے تو ایک کے بعد دوسرا تبدیل کرکے زیب تن کر لیا کرتے تھے۔ دوران سفر کھانے کے لئے ہوٹلز پر رکنا معمول نہیں تھا، جہاں کھانے کا وقت ملتا، اکثر گھر کا بنا کھانا ساتھ ہوتا، چلتی گاڑی میں تناول کر لیتے اور دوستوں کو بھی وہی کھلا دیتے۔
خود صاف ستھرا اور مرتب رہنا پسند کرتے، دوستوں کو بھی اسی کی تاکید کرتے۔ ساتھیوں میں سے نماز شب قضا ہوتے کسی نے نہیں دیکھی۔ اگر سفر میں نہ ہوتے تو رجب، شعبان اور رمضان کے تمام روزے رکھتے تھے۔ وہ سادہ زیستی اور تقویٰ و پرہیز گاری کی ایک مجسم تصویر تھے۔ اس سادہ زیستی اور تقویٰ نے ان کی روح کی پرواز کو کبھی رکنے نہیں دیا۔ علی ناصر صفوی شہید کی یہ مختصر دورانئے کی مزاحمتی تحریک ایک سربستہ راز ہے، جس میں ہزاروں سبق پوشیدہ ہیں۔ گزر زمان کے ساتھ یہ راز عیاں ہونگے اور اس میں موجود سبق نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بنیں گے انشاءاللہ۔/۹۸۸/ن۹۴۰