تحریر: ثاقب اکبر
جب ستمبر 2016ء میں روسی فوجی دستہ پہلی مرتبہ پاکستان میں آیا اور تاریخِ پاکستان کی پہلی مشترکہ فوجی مشقیں منعقد ہوئیں تو پوری دنیا میں حیرت کا اظہار کیا گیا۔ ہم نے اس موقع پر جو کالم سپرد قلم کیا اس کا عنوان تھا دنیا بدل رہی ہے، روسی فوجی دستہ پاکستان میں۔ یہ مشقیں بھارت کی مخالفت کے باوجود منعقد ہوئیں۔ اس موقع پر ہمارے بعض دوستوں نے یہ کہہ کر تنقید کی کہ روس کے بھارت کے ساتھ بہت گہرے مراسم موجود ہیں اور بھارت اب بھی روس کے لیے ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کے ساتھ دیرینہ روسی تعلقات کی وجہ سے بھارت کو اب بھی روس کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو درست تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں لیکن ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے، بدل رہی ہے اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ابھی اور بہت کچھ بدل جائے گا۔ بعض چیزیں ہم شعوری طور پر بدل لیں گے اور بعض کو بدلنے کے لیے جبر تاریخ بروئے کار آئے گا۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ہم پہلے طریقے سے چیزوں کو بدل لیں۔
دسمبر 2016ء کے شروع میں جب بھارت میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منعقد ہوئی، جس کا اصل موضوع افغانستان تھا تو بھارت اور افغانستان کے نمائندوں نے پاکستان کے خلاف بیانات دیئے، جبکہ روس کے نمائندے نے اس تنقید کو غلط قرار دیا اور کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان پر تنقید کرنا غلط ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرتاج عزیز کی تقریر بہت تعمیری اور دوستانہ تھی۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مجموعی محور افغانستان اور خطہ ہے، یہاں الزامات کا کھیل نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کے اندر موجود روسی نمائندے کا بھارت کے طرز عمل کی مخالفت کرنا اور پاکستان کے طرز عمل کی حمایت کرنا یقینی طور پر معنی خیز تھا۔ اس کے بعد 27 دسمبر 2016ء کو ماسکو میں روس، چین اور پاکستان کے مابین جو مشترکہ کانفرنس منعقد ہوئی وہ اس حوالے سے ایک نئی پیش رفت کی عکاس تھی۔ اس کانفرنس کے اعلامیے کا اگرچہ رخ افغانستان کی طرف تھا تاہم اس کا مجموعی تاثر اس امر کی تائید کر رہا تھا کہ خطے کے اہم ترین معاملات میں اب روس، چین اور پاکستان اتحادی کی حیثیت سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
اس سہ ملکی اجلاس کے آخر میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور افغانستان کی بگڑتی ہوتی سیکورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تینوں ملکوں نے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیوں میں نرمی کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زرخووا نے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ تینوں ملکوں نے افغانستان کی بگڑتی ہوئی سیکورٹی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں نرم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے تاکہ افغان حکومت اور طالبان میں مذاکراتی عمل انجام پا سکے۔ اس اجلاس میں کیے گئے جو فیصلے سامنے آئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ تینوں ملک افغانستان کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ افغانستان کو بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کی دعوت دی گئی ہے۔ ایک لحاظ سے اس اتحاد کی تشکیل امریکا کے مقابل اور بھارت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک مشترکہ موقف اپنانے کی طرف ایک قدم ہے۔
ابھی یہ ابتداء ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اگلے مراحل میں اس اتحاد کے عملی نتائج کیا رونما ہوتے ہیں۔ پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد 23 ستمبر 2016ء کو بی بی سی نے سارا حسن کی ایک رپورٹ شائع کی۔ جس کے مطابق پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی میں جو ممالک ایک کیمپ میں تھے وہ جدا ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا زیادہ فوکس اپنے خطے میں ہونا چاہیے اور علاقائی ممالک سے تعاون بڑھنا ہی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے تعلقات انڈیا کے امریکا کی جانب جھکاؤ کا ردعمل ہے، کیونکہ اس سے خطے کی بین الاقوامی سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں انڈیا اور امریکا کے مابین اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے ہوئے جس کے بعد چین، پاکستان، وسطی ایشیائی ممالک، روس اور ایران کے مابین تعلقات بڑھ رہے ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس کے ساتھ تعلقات کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے مزید آپشنز کھل گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس خطے میں خاص کر مسلم ممالک کے لیے امریکا کی خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات کے آغاز سے پاکستان کو انڈیا کے سفارتی دباؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔ معروف کالم نگار وسعت اللہ خان پاک روس معاشقہ کے زیر عنوان بہت پہلے لکھ چکے ہیں کہ معاملہ سیدھا سیدھا ہے، بین الاقوامی سیاست میں نہ مستقل دشمنیاں ہوتی ہیں نہ دوستیاں، دوام صرف ضرورت اور مفاد کو ہے۔ بھارت امریکا کی جانب کھچے گا تو پاکستان، چین اور روس میں قربت بڑھے گی، حالات کے جبر نے پاکستان کے خلیجی ممالک سے تعلقات میں گرم جوشی کا عنصر گھٹا دیا ہے۔ اے پی پی سے منسلک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار حمزہ رحمن ملک بھی اکتوبر 2016ء میں دیے گئے ایک انٹرویو میں خطے میں نئی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ خطے میں روس، چین،پاکستان اور ایران پر مشتمل ایک نیا اتحاد بننے جارہا ہے۔
اگست 2016ء میں جب امریکا اور بھارت کے مابین ایک دوسرے کے زمینی، فضائی اور بحری اڈے استعمال کرنے کا معاہدہ ہوا تو اس معاہدے پر روسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت امریکا کے ساتھ سٹرٹیجک معاہدے کے ذریعے اپنے سرد جنگ کے اتحادی روس اور چین کے خلاف نئے تنازعات میں کود پڑے گا اور واشنگٹن کے ساتھ سٹرٹیجک تعاون کے تحت اپنی سرزمین پر امریکی فوج کو اڈے فراہم کرکے اپنے ہی بھارتی عوام کو سماجی انتشار سے دوچار کردے گا۔ اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ نوائے وقت نے اپنے اداریہ میں لکھا تھا کہ کیا امریکا اور بھارت کے مابین ہونے والے اس معاہدے سے یہ تاثر پیدا نہیں ہو رہا کہ بھارت اور امریکا اپنے سلیپنگ پارٹنر اسرائیل کی مدد سے اس خطے میں ایک نیا بلاک تشکیل دینے کی غیر شعوری طور پر راہ ہموار کررہے ہیں۔ امریکا بھارت تعلقات میں قربت اور نئے معاہدے کے بعد پاکستان، چین، ایران اور روس پر مشتمل ایک بلاک منظر نامے پر ابھرتا نظر آرہا ہے۔ کیا اس سے خطے میں امن قائم ہوگا؟ اس کا جواب بھارت دے تو بہتر ہے جو پاکستان دشمنی میں اس حد تک اندھا ہو گیا ہے کہ امریکا کے پاس اپنی زمین گروی رکھ رہا ہے۔
ڈان اخبار نے 2 اگست 2016ء کو ایک رپورٹ شائع کی۔ جس کا عنوان تھا امریکا کو چین، روس اور پاکستان سے خطرہ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں روس، چین، پاکستان اور شمالی کوریا کا نیا اتحاد بن سکتا ہے اور ان سے امریکی برتری کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور ایران بھی خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور نئے اتحادی بنانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ مذکورہ بالا تمام رپورٹوں، تجزیوں اور بیانات کے ساتھ روس اور ایران کی اس خواہش کو بھی شامل کر لیا جائے کہ جس کے مطابق وہ سی پیک کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور بظاہر اس خواہش کو چین کی تائید بھی حاصل ہے۔ چین اور پاکستان مشترکہ طور پر کسی بھی ملک کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دے سکتے ہیں۔ البتہ چین چاہے تو پھر پاکستان کو تائید ہی کرنا پڑے گی۔
روس اس طرح سے گرم پانیوں تک پہنچنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو بھی پورا کرلے گا اور بقول تجزیہ نگار سکندر خان بلوچ کے کہ تاریخ کے فیصلے بھی بعض اوقات بڑے عجیب ہوتے ہیں، جو کام پاکستان کی مخالفت کی وجہ سے نہ ہو سکا وہ اب پاکستان کی مفاہمت کی وجہ سے ہوتا ہوا ممکن نظر آرہا ہے، وہ یوں کہ پاکستان کی اقتصادی راہداری چین سمیت پورے سینٹرل ایشیا کو گوادر تک لے آئے گی۔ ان تمام امکانات اور ممکنات کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کو از سر نو نئی جامعیت کے ساتھ تشکیل دینا ہوگا۔ ایک طرف روس اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور دوسری طرف امریکا نواز رجعت پسندوں سے دوستی، دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش قرار پائے گی۔ اب پاکستان کو یکسو ہونے کے ضرورت ہے۔ ہمارا یہ مقصد نہیں کہ خواہ مخواہ دشمن تراشی کی جائے لیکن ایسے نئے اقدامات اور امید افزائیوں سے گریز کرنا چاہیے جو خارجہ پالیسی کے نئے تقاضوں کے منافی ہیں۔/۹۸۹/ ف۹۴۰