تحریر: ثاقب اکبر
قرآن حکیم میں امت اسلامیہ کا ایک منصب یہ بیان کیا گیا ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًآ(۲۔بقرہ:۱۴۳) اور اس طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا، تاکہ تم انسانوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوں۔
اسی آیہ مجیدہ کی روشنی میں علماء و مفسرین امتِ اسلامیہ کو امتِ وسط قرار دیتے ہیں۔ امت وسط سے بالعموم دو مختلف معانی مراد لئے جاتے ہیں:
اول: واسطہ، یعنی یہ ایسی امت ہے جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باقی انسانیت کے مابین واسطہ ہے۔ ہر وہ شخص جسے آنحضرتؐ کی معرفت نصیب ہوگئی ہے اور وہ آپؐ پر، آپؐ کی تعلیمات پر، آپؐ کے انسانیت کے لئے اسوۂ حسنہ ہونے پر، آپؐ کی ختم نبوت پر اور آپ ؐپر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لے آیا ہے اور اس طرح اس نے خانہ کعبہ کو قبلۂ انسانیت اور مرکز بشریت کے طور پر اختیار کر لیا ہے تو اس کے ذمہ ہے کہ وہ انسانی فلاح کے ضامن اسی ایمان و معارف کو دیگر انسانوں تک پہنچائے۔ یہ درجہ اول میں امت اسلامیہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور دوسرے درجے میں ہر مسلمان کی۔
دوم: نمونہ عدل و انصاف، یعنی امت اسلامیہ کو عدل و انصاف کا پرچم بردار بننا ہے۔ اسے خود مقام وسط یعنی مقام عدل و اعتدال پر رہنا ہے، تاکہ وہ بے اعتدالیوں، بے انصافیوں اور ظلم و ستم کا شکار انسانیت کے لئے مثال بھی بنے اور مرکز امید بھی۔
رسول اسلام ؐکے اس امت پر گواہ ہونے اور اس امت کے تمام انسانوں پر گواہ ہونے کے پس منظر میں اور خاص طور پر اس آیہ مجیدہ کے سیاق و سباق کو بھی سامنے رکھتے ہوئے چند باتیں نہایت اہم ہیں:
i۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کو نہیں آنا اور چونکہ آپ خاتم النبیینؐ ہیں، اس لئے ضرورت نبوت کے دلائل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پیغام نبوت کو پہنچانے کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے اور اس کے لئے اس امت کو ختم نبوت کے اعتقاد کے ساتھ ساتھ، اس اعتقاد کے نتیجے میں عائد ہونے والی ذمے داریوں کو بھی پورا کرنا ہے اور ان ذمے داریوں میں سے بنیادی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ باقی انسانیت کے لئے واسطہ بن جائے۔
ii۔ اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کی نبوت اور آپؐ کا پیغام ساری انسانیت کے لئے ہے، کسی ایک گروہ، کسی ایک علاقے اور کسی ایک زمانے کے لئے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ کے کلمات آئے ہیں۔
iii۔ یہ آیت مجیدہ ان آیات کے مابین آئی ہے، جن میں خانہ کعبہ کے قبلہ کی حیثیت سے مقرر کئے جانے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اسی آیت میں قبلہ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا۔۔۔۔
خود کعبہ کو قبلہ کی حیثیت سے متعین کرنے کا مقصد بھی ساری انسانیت کے لئے ایک محسوس مرکز ہی کا قیام ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ایک اور آیت میں اس کی وضاحت کی گئی ہے: جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ۔۔۔ (۵۔مائدہ:۹۷) اللہ نے محترم گھر کعبہ کو انسانوں کے قیام کے لئے مقرر کیا ہے۔۔۔
iv۔ ظاہر ہے کہ جتنی کسی کو دین کی معرفت ہوگی اور اپنی دینی ذمہ داریوں کا احساس ہوگا، اتنا ہی وہ ساری انسانیت کے لئے شہادت حق کے فریضے کی ادائیگی کے لئے اقدام کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امت وسط کا تصور خود امت اسلامیہ میں درجہ بدرجہ ہے۔ لہٰذا وہ افراد جو زیادہ اللہ اور اس کے رسول کی معرفت رکھتے ہیں اور معرفت کے تقاضوں پر عمل پیرا ہیں، وہ پہلے مرحلے میں امت وسط کا مصداق ہیں۔
v۔ مندرجہ بالا توضیحات سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امت وسط ایک مرتبے سے زیادہ ایک فریضے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور جو بھی اس فریضے کو دانش و بینش کے ساتھ ادا کرے گا، وہی اللہ اور پیغمبر اکرم ؐکی طرف سے’’شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ‘‘ کا مصداق ہوگا۔
vi۔ اس آیہ مجیدہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خود امت اسلامیہ کو بھی منہج عدل و انصاف پر قائم رہنا ہے۔ اگر امت یا امت کا کوئی گروہ عدل و انصاف اور اعتدال و رواداری کے تصور اور معیار پر پورا نہیں اترتا تو وہ یہ فریضہ ادا کرنے کا اہل قرار نہیں پا سکتا۔
ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم آج کے عالم اسلام پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ مجموعی طور پر امت اسلامیہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ مادی پسماندگی، اخلاقی تنزل، باہمی انتشار، علمی انحطاط اور اپنے زوال و زبوں حالی سے عدم آگاہی پوری امت کا ایک مجموعی المیہ ہے۔ ایسے میں اول تو تبدیلی کی خواہش اور ارادے کا پیدا ہونا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے اور اگر پیدا ہو بھی جائے تو زوال و پسماندگی کے اسباب و وجوہ سے ناواقفیت صحیح حکمت عملی تک پہنچانے میں سد راہ ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں گذشتہ ایک سو سال میں تبدیلی کے لئے جو کوششیں ہوئی ہیں، وہ کم ہی کسی مثبت نتیجہ پر پہنچی ہیں، یا پھر انہوں نے منفی راستہ اختیار کر لیا ہے، یا ان کی کوششوں کا ہدف محدود ہے۔ ان نتائج کے پیچھے ذمہ دار شخصیات کا تصور دین، معرفت انسان اور مقاصد بعثت انبیاء کی شناخت میں ان کا درجہ فہم ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کئے بغیر امت اسلامیہ، امت وسط کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتی۔ جب تک امت اسلامیہ کا تاثر عالم انسانیت کے سامنے امت وسط کی حیثیت سے نہیں ابھرے گا، اس وقت تک وہ اپنے فریضے کی ادائیگی کی طرف اعتماد سے گامزن نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں ہماری چند معروضات قابل غور قرار پا جائیں تو ممکن ہے ہم کسی مثبت نتیجے کی طرف چل پڑیں۔
مسلمانوں کے کئی معاشرے آج شدت پسندی کی گرفت میں ہیں۔ کئی ریاستیں تباہی و بربادی کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ اس تباہی کی روک تھام کے لئے امت اسلامیہ میں کوئی قابل ذکر اقدام بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کوئی ملک لاتعلق ہے اور کوئی محدود مقاصد کے حصول کے لئے اپنے وسائل تباہی کے عمل میں جھونکے ہوئے ہے۔ کوئی ملک دیکھ رہا ہے کہ طاقت اور دولت کس کے پاس زیادہ ہے، لہٰذا اسے اپنی حمایت کا یقین دلا سکے۔ فرقہ واریت اور تکفیریت بعض ریاستوں کی سرکاری پالیسی کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ اس سارے پس منظر میں ہماری رائے یہ ہے کہ پاکستان، یہاں کے اہل فکر و دانش، درد مند دل رکھنے والے قائدین اور خود باشعور عوام کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور کسی مثبت اقدام (Initiative) کا آغاز کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ اقدام جانب دار ہو کر نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری یہ بھی رائے کہ پاکستان عملی طور پر ایسا کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اس اہلیت کا ادراک کر لیا جائے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کے بعد اس کی ادائیگی کے لیے یکسو ہو جایا جائے۔
اس کے لئے ہم چند دلائل پیش کرتے ہیں:
۱۔ پاکستان عالم اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے اور عالم اسلام میں اس کا ایک خاص مقام اور ساکھ ہے۔
۲۔ عالم اسلام میں پاکستان واحد ایٹمی طاقت ہے، جس کے پاس بہت بڑی فوج ہے اور جو موثر طور پر اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا چکی ہے۔
۳۔ ابھی پاکستان نے عالم اسلام کی آویزیشوں میں کھل کر کسی ایک گروہ کا ساتھ نہیں دیا، اگرچہ اس سلسلے میں چند امور ضرور قابل اعتراض ہیں، لیکن اگر آئندہ کچھ احتیاط کی جائے تو پاکستان ثالثی کے لئے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
۴۔ پاکستان جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے بھی عالم اسلام کے تقریباً وسط میں موجود ہے اور اپنے مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے مابین ایک قدرتی درمیانی مقام رکھتا ہے۔
۵۔ تربیت یافتہ مین پاور کے اعتبار سے بھی پاکستان عالم اسلام میں قابل لحاظ حیثیت رکھتا ہے۔
۶۔ پاکستان کے لوگوں کی بھاری اکثریت مزاج کے اعتبار سے منہج اعتدال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ ضرور اس ملک میں سرگرم عمل رہے ہیں اور آج بھی ہیں، لیکن عوام کی بھاری تعداد اعتدال و توازن کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے۔ پاکستان کے مختلف مسالک کے لوگوں کے مابین رواداری، دوستی، بھائی چارہ اور اجتماعی تعلقات دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ ہیں۔
۷۔ پاکستان میں تقریباً تمام قابل ذکر مذہبی مسالک کے لوگ موجود ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ان مسالک کی آبادی پاکستان میں پورے عالم اسلام کی آبادی کے تقریباً تناسب کے ساتھ موجود ہے۔ یعنی دنیا بھر میں سنی اور شیعہ کی آبادی کا جو تناسب پایا جاتا ہے، تقریباً وہی تناسب پاکستان میں ان دونوں مسالک کے ماننے والوں کا ہے اور یہ دونوں مسالک باہم مل کر اس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ کچھ عرصے سے بیرونی عوامل کی دست اندازی کی وجہ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے ہیں، لیکن عوام کی بڑی تعداد نے شدت پسندی کے مظاہر کو مسترد کردیا ہے۔ اس طرح پاکستان کی یہ آباد ی عالمی سطح پر دیگر مسلمان ممالک کے لئے ایک نمونے کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
۸۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کی معتدل مزاجی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے جن شخصیات کی تبلیغ اور کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، وہ خود انسان دوستی اور محبت و ہمدردی کا نمونہ تھے۔ انہوں نے بت پرستوں کے ساتھ بھی محبت و اخوت کا ایسا برتاؤ کیا کہ جس سے متاثر ہو کر یہاں کے لوگوں نے ان کا دین اور دھرم خوش دلی سے قبول کر لیا۔ یہ اس سرزمین کے وہ صوفیاء اور اولیاء ہیں، جن کے ساتھ اب بھی مسلمان بے پناہ محبت کرتے ہیں بلکہ ابھی بھی ان کے چاہنے والوں میں بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہے۔ اس سلسلے میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی مفید ہے کہ اسلام قبول کرنے کا دور برصغیر میں وہ تھا، جب ابھی یہاں مذہبی علماء اور مذہبی مدرسے وجود میں نہیں آئے تھے۔
ان نکات کے پیش نظر ہم عرض کریں گے کہ پاکستان کی دینی قیادت، جدید تعلیم یافتہ دانشوروں اور سیاست دانوں کو باہم سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور امت اسلامیہ کو موجودہ گرداب سے نکال کر ترقی و کمال کے راستے پر ڈالنے کی تدابیر پر غوروفکر کرنا چاہیے، تاکہ تنزل کے دور کو پیچھے کرتے ہوئے امت اسلامیہ ایک نئے ترقی کے سفر پر گامزن ہو اور پھر اس قابل ہوسکے کہ دیگر انسانیت کو بھی اس دین کی برکتوں سے آگاہ کرسکے اور ساری انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے اظہار کے طور پر انہیں انبیاء کے پیغام کی طرف دعوت دے سکے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰