‫‫کیٹیگری‬ :
01 April 2017 - 19:33
News ID: 427240
فونت
۳۱ مارچ کو ایک مرتبہ پھر پارا چنار میں خون کی ہولی کھیلی گئی، قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے، ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا تھا، آہ و سکسیوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں، بوڑھا باپ اپنے کمسن بیٹے کا خون پارہ لاشہ ہاتھوں میں لئے آسمان کی طرف سر اٹھائے شکر بجا لا رہا ہے تو کوئی اپنے عزیر کے گولیوں سے چھلنی جسم سے لپٹ کر رو رہا ہے۔ لیکن جس منظر نے مجھے خون کے آنسو رلائے، وہ ایک مرجھائی ہوئی کلی تھی، جو سجدے کی حالت میں بکھری پڑی مسلمانوں سے اپنے جرم کا ثبوت مانگ رہی تھی۔
 پارا چنار دھماکہ

تحریر: ساجد مطہری

ہر آئے دن کڑیل جوان بیٹوں، کمسن بچوں اور عمر رسیدہ بوڑھوں کا نذرانہ پیش کرنا ایک زندہ قوم کی نشانی ہے اور کتنے باعظمت ہیں یہ شہداء جو اپنے خون سے مکتب کی خشک جڑوں کی پھر سے آبیاری کرتے ہیں اور قوم کی خواب غفلت میں سوئی ہوئی ضمیر جنجھوڑتے ہیں، انہیں یاد دلاتے ہیں کہ کہیں دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہو کر ہمارا مقصد بھول نہ جائیں، کتنی قابلِ تحسین اور قابلِ رشک ہے وہ قوم جو شہداء کا پاکیزہ خون رائیگان نہیں جانے دیتی اور شہداء کے خون کو مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔ گذشتہ روز یعنی 31 مارچ کو ایک مرتبہ پھر پارا چنار میں خون کی ہولی کھیلی گئی، قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے، ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا تھا، آہ و سکسیوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں، بوڑھا باپ اپنے کمسن بیٹے کا خون پارہ لاشہ ہاتھوں میں لئے آسمان کی طرف سر اٹھائے شکر بجا لا رہا ہے تو کوئی اپنے عزیر کے گولیوں سے چھلنی جسم سے لپٹ کر رو رہا ہے۔ لیکن جس منظر نے مجھے خون کے آنسو رلائے، وہ ایک مرجھائی ہوئی کلی تھی، جو سجدے کی حالت میں بکھری پڑی مسلمانوں سے اپنے جرم کا ثبوت مانگ رہی تھی۔

بہرحال، ہماری تاریخ خون سے لکھی جا چکی ہے اور حق و باطل کے درمیان معرکہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ان قربانیوں سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ حالانکہ یہ اللہ تعالٰی کا فیصلہ ہے کہ ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے، جب تک ان چیزوں کو اللہ کی راہ میں پیش نہ کرو، جو تمہیں پسند ہیں‘‘۔۔۔ بہرحال ہم اتنی عظیم قربانی تو دے چکے، تاہم اگر اس کے باوجود ہم ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے تو ہم نے شہداء کے خون کی پاسداری نہیں کی۔ اگر ہم نے آپس کی کدورتوں اور نفرتوں کو فراموش نہیں کیا تو ہم نے شہداء کے خون کو رائیگان جانے دیا۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے 5 جون 1963ء (15 خرداد 1342 ھ ش) کو شاہ کے خلاف مظاہروں میں بے گناہ عوام کا خون بہایا گیا تو ایرانی قوم نے شہداء کے خون کی پاسداری کیم جس سے رفتہ رفتہ اسلامی انقلاب کے لئے راہیں ہموار ہوگئیں۔

اسی طرح 1992ء کو حزب اللہ کے سابق راہنما سید عباس موسوی کی شہادت کی تپش ہی اسرائیلیوں کے چنگل سے لبنان کی آزادی کا باعث بنی، یا حال ہی میں یمن کا انقلاب ملاحظہ فرمائیں۔ جس کی ابتدا 14 جنوری 2011ء کو وسیع پیمانے پر شیعوں کے قتل عام سے ہوئی اور یہی قتل عام، یمن انقلاب کے لئے اولین چنگاری ثابت ہوا۔ جس کے بعد پورے یمن میں بیداری کی لہر دوڑ گئی، لوگ سڑکوں پر آئے اور یوں ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کی بائیس سالہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت حالات سازگار نہیں ہیں اور شیعہ اقلیت میں ہیں، لہذا یہاں ولایت فقیہ اور شیعہ طرزِ فکر پر حکومت قائم نہیں ہوسکتی تو کم از کم پاکستان کے شیعہ متحد ہو کر ایک مقتدر قوم کے طور پر تو ابھر سکتے ہیں، جو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں اور ایسی قوم بنیں جو ’’آشداء علی الکفار، رحماء بینھم‘‘ کا مصداق بن کر آپس کی تمام تر تلخیوں اور کدورتوں کو پس پشت دالتے ہوئے دشمن کی آنکھ میں کانٹا اور آپس میں رحمدل بن جائیں اور یہ اللہ تعالٰی کا اٹل فیصلہ ہے کہ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬