تحریر: حسین رویوران
امریکہ کی جانب سے شام کے دوسرے بڑے فوجی ہوائی اڈے یعنی شعیرات کو 59 ٹام ہاک میزائلوں سے نشانہ بنانا ہر گز اس بات کی علامت نہیں کہ امریکہ نے شام حکومت کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے کیونکہ امریکہ ایک نئی جنگ میں کودنے کی جرات نہیں رکھتا۔ دوسری طرف امریکی عوام کی بڑی تعداد کسی بھی نئی فوجی مہم جوئی کے سخت خلاف ہے۔ شام پر میزائل حملوں پر مبنی امریکی اقدام بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے علاوہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کے خلاف اعلان جنگ بھی تھا۔ شام پر میزائل حملوں نے ثابت کر دیا کہ امریکی حکومت بین الاقوامی قوانین کی پابند نہیں اور اس کی نظر میں دیگر ممالک کے حقوق کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
اگرچہ امریکہ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کی یہ فوجی کاروائی شام حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ردعمل تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس حملے کے ذریعے شام حکومت کو کمزور کر کے اس ملک میں ایک نیا توازن ایجاد کرنے کے درپے ہے۔ گذشتہ ایک دو سالوں کے دوران شام کی صورتحال میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور شام حکومت حلب، پالمیرا (تدمر)، مشرقی حلب اور دمشق کے اطراف بعض علاقوں سے دہشت گرد عناصر کا قبضہ ختم کرانے میں کامیاب رہی ہے۔ اسی طرح اکثر علاقوں میں یا تو دہشت گرد عناصر نے ہتھیار پھینک کر خود کو مسلح افواج کے حوالے کر دیا ہے یا پھر اپنے علاقے شام حکومت کے حوالے کر کے وہاں سے نکل گئے ہیں۔ یہ تمام حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ شام کی جنگ پر حکومت کا پلڑا بھاری ہوتا جا رہا ہے۔
لہذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ شام میں جاری بحران کو طول دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی حکومت اندرونی حالات کے پیش نظر شام میں جاری جنگ سے دور رہ کر شام حکومت کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لہذا الشعیرات ایئربیس پر امریکی میزائل حملہ ایک جنگ کی بجائے نمائشی اقدام سے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔ امریکہ بنیادی طور پر خطے میں ایک نئی جنگ شروع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ایسے نمائشی اقدامات سے امریکی حکومت کا مقصد میڈیا کے ذریعے دوسروں پر اپنا رعب اور دبدبہ ایجاد کرنا اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ خارجہ سیاست میں موجودہ امریکی حکومت انتہائی سنجیدہ ہے۔ دوسری طرف الشعیرات ایئربیس پر میزائل حملہ ایک ایسے ملک کی جانب سے انجام پایا ہے جو دہشت گردی سے مقابلے کا دعویدار ہے لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حملے نے امریکی دعوے کی حقیقت کا پول کھول دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ اسے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ شام ایئرفورس پر حملہ، جو داعش کے خلاف جنگ میں مصروف ہے واضح طور پر داعش کی طرفداری کی علامت جانا جا رہا ہے۔
یقیناً امریکہ کی جانب سے ایسے اقدام کی تکرار، روس کے ساتھ اس کے براہ راست ٹکراو کا باعث بن سکتی ہے۔ اگرچہ اب تک روسی فوجیوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور امریکہ اور روس میں براہ راست ٹکراو کا بہانہ فراہم نہیں ہوا لیکن ایسی کاروائیوں کا تسلسل اس ٹکراو کا باعث بن سکتا ہے جبکہ امریکہ خود روس سے براہ راست ٹکر نہیں لینا چاہتا۔ محدود فوجی کاروائی سے امریکہ کا مقصد عالمی سطح پر اپنا امیج بہتر بنانا اور خود کو طاقتور ظاہر کرنا ہے تاکہ شام کی سیاسی صورتحال پر اثرانداز ہو سکے۔ لیکن امریکہ کے ایسے احمقانہ اقدامات کے عالمی سطح پر انتہائی منفی نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اپنی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر عالمی اداروں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ دیگر اداروں کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔/۹۸۸/ن۹۴۰