تحریر: ثاقب اکبر
پاک افغان چمن بارڈر پر ہونے والا سانحہ ایسا نہیں کہ جس سے سرسری طور پر گزر جایا جائے۔ چند روز قبل افغانستان کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہوا ہے، وہ پاک افغان سرحد پر پہلے ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجوہ پر گفتگو جاری ہے، تاہم اس کے جواب میں پاکستان کی فوجی کارروائی بھی ماضی کی نسبت خاصی بڑی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم احمد کے مطابق پاکستان کی جوابی کارروائی کے دوران میں افغان فورس کے 50 سپاہی ہلاک ہوئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ پانچ افغان پوسٹوں کو تباہ کر دیا گیا۔ میجر جنرل ندیم احمد یہ سب بیان کرتے ہوئے خوش نہیں تھے بلکہ ان کے الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس کارروائی پر غمزدہ تھے، چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم نے برے وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے اور افغان فورسز کے جانی نقصان پر ہمیں دکھ بھی ہے، لیکن پاکستان کی سالمیت اور پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ اسی طرح سرحدی علاقوں میں کسی بھی قسم کی سرحدی خلاف ورزی ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں افغان فورسز کی طرف سے کی جانے والی جارحیت کا پس منظر بھی بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے آغاز سے قبل ہی افغان فورسز کو آگاہ کر دیا گیا تھا اور ان کی جانب سے جواب میں تاخیر کو بھی برداشت کرکے دو دن بعد مردم شماری کا آغاز کیا گیا۔ اس کے باوجود مردم شماری کے کام میں رخنہ ڈالنے اور شہری آبادی پر فائرنگ کرکے دس افراد کو شہید کئے جانے کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود بھاری ہتھیار استعمال نہیں کئے گئے، مبادا دونوں طرف کی شہری آبادیوں کو نقصان پہنچے۔
میجر جنرل ندیم نے کہا کہ چمن واقعہ سے کابل اور دہلی کا گٹھ جوڑ واضح ہوچکا ہے اور افغان حکام کو مثبت مشورے نہیں دیئے جا رہے، جس کا سراسر نقصان افغان فوج اور عوام کو پہنچ رہا ہے، جسے افغان حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ کابل اور قندھار میں بیٹھے حکام نچلی سطح تک احکامات اور ان کے ردعمل کو دیکھیں گے اور درست حکمت عملی اپنائیں گے۔ چمن پر پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی پر پاکستان میں متعین افغان سفیر عمر زاخیل وال نے چمن واقعہ میں پچاس فوجیوں کی ہلاکت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جھڑپوں میں ہمارے صرف دو فوجی مارے گئے ہیں، جبکہ سات فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ افغان سفیر کو یہ معلومات کس ذریعے سے حاصل ہوئیں اور یہ کتنی مستند ہیں، تاہم دونوں طرف جتنا بھی نقصان ہوا ہو، افسوسناک ہے۔ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کے حوالے سے میجر جنرل ندیم احمد کے بیان میں بھی واضح اشارے موجود ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد نفیس زکریا نے بھی افغان سرزمین پر بھارت کی پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس لئے بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ پوری دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ بھارت خود مختار ممالک کے اندر ریاست کی سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہے۔ کلبھوشن یادیو کا بیان اور احسان اللہ احسان کے اعترافات سمیت بے شمار ایسی چیزیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جن سے بھارت کی افغانستان میں پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کا ثبوت ملتا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ جنگجو گروپ مذاکرات کی میز پر آئیں اور افغان حکومت سے بھی کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لئے ماحول پیدا کرے، تاکہ لوگ بات چیت کے لئے راضی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چمن واقعہ کو کئی پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں چالیس سال سے مستقل خانہ جنگی کا عالم ہے، وہاں کئی نان اسٹیٹ ایکٹرز کو بھی جگہ ملی ہے، ان میں کچھ عناصر ایسے ہیں ،جو پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ میجر جنرل ندیم احمد اور ترجمان وزارت خارجہ نفیس زکریا دونوں کے بیانات میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ممکن ہے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے پیچھے بھارت کا افغانستان میں نیٹ ورک اور نان اسٹیٹ ایکٹرز موجود ہوں، جو نہیں چاہتے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دوستانہ مراسم فروغ پا سکیں۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود کابل میں موجود حکام بھی حالات کی نزاکت اور مشترکہ دشمنوں کے منفی مقاصد کی طرف متوجہ ہونے کے لیے تیار نہیں۔
اسی امر کی طرف بی بی سی کے ہارون رشید نے اپنے 7 مئی 2017ء کے تجزیے میں اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اسلام آباد کی جانب سے اس واقعے کو ایک مرتبہ پھر تعلقات میں بہتری کی کوشش کو سبوتاژ کرنے کی سازش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان کی جانب سے تین اعلٰی سطحی وفود کے کابل دورے کے تناظر میں تعلقات میں بہتری کی کوششوں کو روکنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی مکمل مدد کا یقین دلانے کی خاطر فوجی اور پارلیمانی وفود نے کابل کے حالیہ دنوں میں دورے کئے تھے اور تعلقات میں گرمجوشی کی امید کی جا رہی تھی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ افغانستان حالیہ دنوں میں ان کی کوششوں کا مثبت جواب دے رہا ہے۔" ہماری رائے میں اس سارے مسئلہ کو فقط بھارت کی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں دیکھنا شاید درست نہ ہو۔ جبکہ امریکا خم ٹھونک کر ابھی تک افغانستان میں موجود ہے۔ چمن سانحے کے بعد امریکہ بظاہر پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لئے سفارتی رابطے کر رہا ہے، لیکن یہ سادگی ہوگی کہ امریکہ کے بارے میں یہ فرض کیا جائے کہ بھارت امریکی آشیرباد کے بغیر افغان سرزمین پر پاکستان کے خلاف اس طرح سے سرگرم عمل ہے، جس کی کچھ تفصیلات احسان اللہ احسان کے بیانات کے ذریعے سامنے آچکی ہیں۔
ہمارا یہ نقطہ نظر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ امریکہ ماضی میں بلکہ ماضی قریب میں روس کے توسط سے افغانستان کے بارے میں ہونے والی کوششوں پر چیں بہ جبیں رہا ہے۔ اس سلسلے میں 28 دسمبر 2016ء کو پاکستان، روس اور چین کے مابین ایک کانفرنس ماسکو میں منعقد ہوچکی ہے۔ اس سہ فریقی کانفرنس کا اصل موضوع افغانستان ہی تھا۔ چنانچہ اس بیٹھک کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں تینوں ملکوں نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا۔ نیز افغانستان کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورت حال پر متنبہ کیا۔ اس سلسلے میں روسی ترجمان ماریہ زخاروف نے کانفرنس کے بعد کہا کہ تینوں ممالک نے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے لچکدار رویہ پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اس کے بعد حال ہی میں 14 اپریل 2017ء کو ماسکو میں قیام امن کے حوالے سے پھر ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں 12 ممالک نے شرکت کی۔ اس میں امریکہ موجود نہیں تھا۔ جبکہ اس کو دعوت دی گئی تھی، لیکن اس کا کہنا تھا کہ کانفرنس بلانے سے پہلے ہم سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔ اس کانفرنس کے اگلے ہی روز امریکہ نے افغانستان میں ایٹم بم کے بعد دنیا کا سب سے بڑا بم استعمال کیا، جسے وہ مدر آف آل بمز کہتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بم کے چلانے کا مقصد یہ اعلان کرنا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک جتنی بھی بیٹھکیں کرلیں، افغانستان پر امریکہ کا قبضہ ہے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔
اس بارے میں یہ بھی ظاہر ہے کہ کابل میں موجود حکمران طبقہ نہیں چاہتا کہ مستقبل کے افغانستان میں طالبان کا کوئی بڑا کردار ہو۔ امریکہ طالبان کے ہاتھوں مسلسل ہزیمتوں کے باوجود یہ آسانی سے قبول نہیں کرسکتا کہ طالبان کا افغان حکومت کی تشکیل میں موثر کردار ہو۔ ہاں البتہ ایسے طالبان اسے قبول ہیں کہ جو اس کی منشاء کے مطابق عمل کریں۔ پاک افغان مسائل کو اس سارے منظر نامے کو سمجھے بغیر صحیح طور پر سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس کے حل کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ روس یہ سمجھتا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کی شکست کے بعد داعش کا سب سے بڑا مرکز افغانستان بن سکتا ہے۔ یہی خطرہ چین کو بھی لاحق ہے۔ ایران پہلے ہی روس اور چین کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف شام میں ایک ہم آہنگ حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔ اسے بھی اپنے پڑوس میں داعش کی ابھرتی ہوئی ممکنہ طاقت سے خطرہ ہے۔ پاکستان بھی اس خطرے کا احساس کرکے ہی ماسکو میں ہونے والی امن کانفرنس کا اہم حصہ بنا ہے۔ یہ تمام ممالک یہ بھی سمجھتے ہیں کہ داعش کا توڑ طالبان کے بغیر افغانستان میں نہیں کیا جاسکتا۔
اس صورت حال میں امریکہ جو مشرق وسطٰی میں اپنے منصوبوں میں ناکام ہوچکا ہے، افغانستان کے مستقبل میں اپنے لئے اب کسی فیصلہ کن کردار کی خواہش رکھتا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لئے اسے افغانستان میں بھارت کی بھی ضرورت ہے اور افغانستان کے ایسے عناصر کی بھی جو روس، چین اور پاکستان کی مشترکہ حکمت عملی کے مقابلے میں اس کا ساتھ دے سکیں۔ اگر افغانستان کی حکومت ماسکو کے زیر اہتمام ہونے والی امن کوششوں کی حقیقی حصے دار بن جائے تو امریکہ کی یہ ساری خواہشیں ناکام ہوسکتی ہیں۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان جو مسلسل افغان حکومت کے ساتھ اچھے روابط کے لئے کوششیں کر رہا ہے، اس کا اُدھر سے اچھا جواب کیوں نہیں آتا، یہاں تک کہ افغان صدر پاکستان کے دورے کی دعوت بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ کیا وہ واقعی یہ سب کچھ اپنی آزاد مرضی سے کر رہے ہیں، جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوست بدل سکتے ہیں، ہمسائے نہیں بدل سکتے۔ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان جو صدیوں سے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ یاد رکھنا ہے کہ دنیا میں ہوائے چمن رُخ بدل رہی ہے، اس لئے چمن کا بارڈر ہو یا طورخم کا، اسے دوستی کی سرحد میں بدلنا ضروری ہے۔/۹۸۸/ ۹۴۰