رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم ایران کے استاد آیت الله مهدی هادوی تهرانی نے مدرسہ آیت الله گلپائگانی قم میں سوره اسراء کی تفسیر کے درس میں جو سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ کی شرکت میں منعقد ہوا، آیت «يَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ...» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: بعض مفسرین آیت میں لفظ "امام" سے نامہ اعمال سے تعبیر کرتے ہیں ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ علامہ طباطبائی نے امام کو مقتداء کے معنی میں بیان کیا ہے کہا: انسان اس دنیا میں جسے بھی اپنا امام ، مقتدا اور اپنی حیات کا آئڈیل قرار دے گا روز قیامت اسے انہیں لوگوں کے ساتھ محشور کیا جائے گا ۔
آیت الله هادوی تهرانی یاد دہانی کی: یہاں پر "امام" سے مراد فقط عقیدہ سے متعلق خاص انسان یا رھبر نہیں ہے بلکہ ھر وہ انسان ہے جو انسانی زندگی کا آئڈیل ہو کہ انسان اپنی حیات میں اس پیروی کرتا ہے اور قیامت میں اسی کے ساتھ محشور ہوں گے ۔
انہوں نے مزید کہا: تقلید کی بحث میں بھی اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ تقلید فقط اس کی نہیں ہوتی جس کا توضیح المسائل گھر میں ہوتا ہے بلکہ تقلید اس کی ہے جس کے فتوے پر انسان عمل کرتا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم ایران کے استاد نے کہا: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اهل بیت(ع) ہمارے مقتدا ہیں مگر میدان عمل میں ان کی پیروی نہیں کرتے ، وہ اهل بیت(ع) کے راستہ سے دور ہیں اور وہ اهل بیت(ع) کے ساتھ محشور نہیں ہوں گے ، کیوں کہ انسان کا امام وہ ہے جس کے راستے پر وہ چلتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: قران کریم میں اهل بیت(ع) کی پیروی کے لئے «مودت» کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اس کی بنیاد یہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کے کردار کو اپنی زندگی میں آئڈیل قرار دیتا ہے ، لہذا ہم جب اهل بیت(ع) کے دوستدار اور پیرو ہیں تو ہمیں ان کی سیرت کو اپنی حیات میں جامہ عمل پہنانا چاہئے ۔
آیت الله هادوی تهرانی نے یاد دہانی کی: قیامت کے دن ہر ایک انسان کا الگ الگ حساب و کتاب ہوگا اور جب ہم نے کسی کو اپنا آئڈیل قرار دیا ہے تو ہمارا عمل اس عمل کے زمرہ میں قرار پائے گا اور جب حساب و کتاب کیا جائے گا تو ان میں سے ہوں گے جن کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا یا ہم ان لوگوں میں سے ہوں گے جس کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا ۔
تقلید ایک عقلی عمل اور طریقہ ہے
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مرجع تقلید کے فتوے پر عمل در حقیقت اهل بیت(ع) کی سنت و سیرت پر عمل ہے کہا: مراجع کی تقلید ایک عقلی عمل اور طریقہ ہے کہ لاعلم انسان ، ماہر انسان کی جانب رجوع کرتا ہے اور شیعہ مراجع کی «تقلید» اھل بیت (ع) کی تقلید ہے ۔
اعلم کا معیار کیا ہے
حوزہ علمیہ قم ایران کے استاد نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انسان ، اعلم مرجع کی تقلید کرے کہا: اعلم وہ ہے جس کا فتوا دیگر مراجع تقلید کی بہ نسبت امتیازات کا حامل ہے ، اور اعلم یا ذاتی صلاحیتوں کی بنا پر بنتے ہیں یا مطالعہ اور تحقیق کی بنیاد پر بنتے ہیں ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مراجع کی پیروی امام زمانہ(عج) کی پیروی ہے کہا: بعض کا یہ کہنا کہ تقلید لازم نہیں ہے بلکہ انسان دین کے بارے میں جو کچھ بھی جانتا ہے اسی پر عمل کرے یہ ایک غلط بیان ہے ، ہر کسی کو فتوا دینے اور اهل بیت(ع) کے نظریات بیان کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے ، امام خمینی کے قول مطابق امریکا کا صدر جمھوریہ بھی فتوے دینے لگا ہے اب فقط یہ بچ گیا ہے کہ وہ کتاب عروه الوثقی پر حاشیہ لگائے ، اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہے ہر کوئی فتوا دینے کو تیار ہے ۔
ہر کسی کو فتوے دینے کی اجازت نہ دیں
آیت الله هادوی تهرانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہر کسی کو فتوے دینے کی اجازت نہ دی جائے کہا: کسی سیاسی فرد کی جانب سے کسی آیت کی تلاوت پر ممانعت صحیح ہے مگر اس کا یہ بیان کہ فلاں آیت کی تلاوت چوں کہ غفلت کا سبب ہے حرام ہے ، یہ بیان قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ غیر فقیہ کی جانب سے فقھی نظریات پیش کیا جانا مناسب نہیں ہے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جوان ابتداء بلوغ سے ہی تقلید کریں اور اعلم کی تلاش کریں کہا: تقلید یعنی اهل بیت(ع) کی پیروی اور مراجع کی تقلید کرنے والے اهل بیت(ع) کے پیرو شمار کئے جائیں گے اور قیامت کے دن انہیں اهل بیت(ع) کی صف میں شمار کیا جائے گا البتہ اگر اعلم نہ مل جائیں تو بہتر ہے ورنہ پھر تمام مراجع تقلید برابر ہیں انسان جس کی چاہے اس کی تقلید کرے ۔/۹۸۸/ ن ۹۳۰/ ک۸۹۴