رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے چھے مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کے حق میں دیئے جانے والے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدقسمتی سے امریکی انتظامیہ خاص مفادات کے تحت اپنے ملک میں دہشت گردی اور اس کے ذرائع کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتی ہے۔.
امریکی سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے متعدد مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پرعائد کردہ پابندی کی جزوی بحالی کا حکم دیا ہے تاہم عدالت اس بارے میں اکتوبر میں تفصیلی سماعت کے بعد مفصل فیصلہ سنائے گی۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ مسلمانوں کے خلاف سفری پابندی پر امریکی عدالت نے عارضی فیصلہ تو دے دیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ اکتوبر میں اس پر تفصیلی کام کیا جائے گا مگر پھر بھی ایسے فیصلوں سے مسلمانوں کے خلاف امریکی حکام کے امتیازی اور ناروا سلوک کا پتہ چلتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری اور مارچ دو ہزار سترہ میں چھے اسلامی ممالک ایران، صومالیہ، سوڈان، یمن، شام اور لیبیا کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی کا صدارتی آرڈینینس جاری کیا تھا جب کہ پناہ گزینوں پر بھی ایک سو بیس روزہ پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جسے مقامی عدالتوں نے ناقابل عمل قرار دے دیا تھا جس پر ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
بیشتر ماہرین کی نظر میں ٹرمپ کے سفری احکامات کے بارے میں غور طلب نکتہ، مشرق وسطی کے علاقے میں دہشت گردوں کے اصل حامی ملک سعودی عرب اور امریکہ و سعودی عرب کے اتحادی ممالک کا نام شامل نہ کیا جانا ہے جبکہ امریکی صدر نے اپنے حالیہ دورہ ریاض میں سعودی عرب کے ساتھ تقریبا پانچ سو ارب ڈالرکے سمجھوتوں پر دستخط بھی کئے ہیں۔
ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمان اور اس ملک کا سفر کرنے والے دنیا کے دیگر مسلمان، کہ جن میں ایرانی شہری بھی شامل ہیں، اپنی ثقافت اور آداب و تہذیب کی وجہ سے پُرامن طور پر زندگی گزار رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ انتہاپسندی اور تشدد کو مسترد کیا ہے جبکہ امریکی حکام ان شہریوں کو، توہین آمیز اور ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سفری حکمنامے پر دنیا کے مختلف ملکوں اور عالمی اداروں منجملہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کی ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰