رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین ڈی آئی خان کے ذمہ دار حجت الاسلام سید غضنفر علی نقوی نے اپنے بیان میں پاراچنار دھرنے کے شرکاء کی استقامت کو سلامی پیش کی اور کہا کہ شہداء کا لہو رائیگاں نہیں جاتا ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ایم ڈبلیو ایم نے عید الفطر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا اور نماز عید کے بعد کوٹلی امام حسین (ع) کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی کہا: ماہ رمضان المبارک میں پاراچنار میں دہشت گردی کا جو اندوہناک سانحہ پیش آیا، اس میں فقط اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا جبکہ درحقیقت یہ دہشت گردانہ حملہ حقیقی معنوں میں پاکستان کی سلامتی پہ براہ راست حملہ تھا۔ جس کا مقصد پاکستان کے قومی اداروں کی فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم تھا۔ تاہم اس دہشت گردی کے خلاف جو پرامن احتجاجی دھرنا حکومت کے خلاف دیا گیا، وہ نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ لائق تحسین اور قابل ستائش ہے۔ دھرنے کے شرکاء نے جو استقامت دکھائی وہ بے مثال ہے۔ علاوہ ازیں اس احتجاجی دھرنے کے باعث دشمن ناکام و نامراد ہوا ہے۔ گرچہ مظاہرین کے مطالبات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، تاہم آرمی چیف کی پاراچنار آمد اور مذاکرات کے دوران تمام مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی نے دشمن کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ خبر نہیں کہاں ہیں وہ جاہل اینکرز جو اس قتل عام کی تاویلیں اور مطالبات پہ بے جا تنقید کا وطیرہ اپنائے ہوئے تھے۔ کیا اس احتجاج کا یہ ثمر ہی کافی نہیں کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف نے مطالبات پہ عملدرآمد اور تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ شہداء کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جاتا، رنگ ضرور لاتا ہے۔
حجت الاسلام نقوی نے کہا: یوم القدس کے موقع پر آئی ایس او اور مجلس وحدت مسلمین کی ایک ہی مشترکہ مرکزی ریلی جامع مسجد لاٹو فقیر سے برآمد ہوئی تھی۔ جس میں تحفظ کوٹلی امام حسین (ع) کمیٹی کی نمائندگی بھی شامل تھی۔ یہی مرکزی اور قدیمی ریلی ہے، جو کہ شہر کے اندرونی بازاروں سے گزر کر اپنے مقررہ مقام گھاس منڈی پہ اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس ریلی میں مختلف دینی جماعتوں کے ضلعی مسؤلین کے علاوہ اہلسنت برادران نے بھی شرکت کی۔ دوسری جانب ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی پلیٹ فارم سے جو اعلان ہوا تھا کہ ہر شہر میں مشترکہ ریلیاں نکالی جائیں گی۔ ڈیرہ میں اس سلسلے میں جو ریلی برآمد ہوئی تھی، اس میں بھی ایم ڈبلیو ایم نے بھرپور حصہ لیا اور مظلومین کی حمایت میں تمام مسالک و مکاتب کے شانہ بشانہ ظالم سے اظہار برائت کیا۔ ایم ڈبلیو ایم اپنے موقف میں بالکل کلیئر ہے کہ یہ مظلوم کی حمایت میں ہر ظالم کے خلاف برسر پیکار ہے۔ وہ مظلوم چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اس کی حمایت و تائید کریں گے جبکہ ظالم کوئی بھی ہو، ہم اس سے نفرت کا اظہار کریں گے۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا : جہاں تک لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق ایم ڈبلیو ایم کی کوششوں کی بات ہے تو نہ صرف اس معاملے کو ضلعی سطح پر بلکہ مرکزی سطح پر بھی اس مسئلہ کو اٹھایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مرکز سے بھی ہم مسلسل رابطے میں ہیں اور مرکزی سطح پر وفاقی حکومت سے ہونے والی میٹنگز میں اس مسئلہ کو ڈسکس کیا جا رہا ہے۔ ڈیرہ میں ایک طرف ٹارگٹ کلنگ اور دوسری طرف انہی مظلومین کے خانوادوں میں سے مردوں کو اٹھایا جا رہا ہے، پانچ پانچ، دس دس سال سے ان افراد کا کوئی پتہ نہیں۔ ہم ہر پلیٹ فارم پہ ان ناجائز گرفتاریوں اور جبری گمشدیوں کا ایشو اٹھا رہے ہیں۔ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس بھی اس معاملے پہ فوکس رکھے ہوئے ہیں۔
ایم ڈبلیو ایم ڈی آئی خان کے ذمہ دار نے تاکید کی: امامت اور عصمت کے بعد اگر کسی ہستی نے انسانیت کی نجات کا بیڑا اٹھایا اور دوست و دشمن سبھی کیلئے یکساں حقوق کی بات کی، نہ چاہتے ہوئے بھی آج دشمن اس بات کا اقرار کرنے پہ مجبور ہے کہ ایک ہستی ایسی تھی جو کہ امام معصوم تو نہ تھی لیکن انسانیت کی بقا و رہبریت کے حوالے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ آج ان کا نام پوری دنیا میں روشن ہے، وہ نام امام راحل، امام خمینی بت شکن رضوان اللہ تھے۔ آزادی قدس، آزادی فلسطین کا مسئلہ ستر سالہ مسئلہ ہے۔ صہیونیوں کے ظالمانہ قبضے کے خلاف امام خمینی نے دوبارہ آواز بلند کی۔ آزادی قدس کوئی شیعہ کا مسئلہ نہیں۔ کسی خاص مسلک، مکتب کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس کلمہ گو کا مسئلہ ہے کہ جو بیت اللہ کی جانب سربسجود ہوتا ہے۔ قبلہ اول کی جانب انبیاء کرام نے رخ کرکے نمازیں ادا کیں۔ رسول پاک (ص) نے اسی جانب رخ کرکے نماز ادا کی۔ امام خمینی نے فلسطین کے مسئلہ کو جمعۃ الوداع کے ساتھ منسوب کرکے پورے عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ چنانچہ یوم القدس کے اجتماعات کسی خاص مسلک، مکتب کے نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے مشترکہ اجتماعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اجتماعات میں ایم ڈبلیو ایم بھرپور انداز میں شریک رہتی ہے اور ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کیا گیا، جو کہ یوم القدس کے حقیقی پیغام کا مظہر ہیں۔ جہاں تک ڈی آئی خان میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کا سوال ہے تو یوم القدس کے جتنے بھی اجتماعات ہوئے، ان سب میں ہر کسی نے مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا، تو میرے خیال میں یہ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا: پی ٹی آئی حکومت نے کوٹلی امام حسین (ع) کی 327 کنال میں سے 120 کنال اراضی دینے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پی ٹی آئی کی شامت آئی ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی موت ہے کہ اڑھائی صدیاں گزر گئیں، جن میں بڑے بڑے ڈکٹیٹر آئے، مارشل لا لگے، ہنگامے ہوئے مگر کسی حکومت، کسی ڈکٹیٹر کی یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ آکر اس 327 کنال 9 مرلے کو درہم برہم کرے اور نہ ہی کسی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ اس کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کی کوشش کرے۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی فقط اراضی نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق عقائد اور شیعیت کے ساتھ ہے۔ اڑھائی صدیوں میں جب کسی حکومت کو اس سے چھیڑ چھاڑ کی جرات نہ ہوئی تو پی ٹی آئی حکومت بھی تشیع قوم کو اتنا کمزور ہرگز نہ سمجھے۔ مجلس وحدت مسلمین اپنے موقف میں اس مسئلہ پر پوری طرح کلیئر ہے کہ ہم ایک مرلہ بھی صوبائی حکومت کو ہڑپ نہیں کرنے دیں گے۔ ان کے جبڑوں سے ہم ایک ایک مرلہ واپس نکالیں گے۔ یہ ہماری قومی غیریت، وقار، عزت و حمیت کا مسئلہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت ایک سو بیس کنال کی پیشکش کرتی ہے، ہم تین سو ستائیس کنال آٹھ مرلے پہ بھی رضا مند نہیں ہوں گے اور مکمل تین سو ستائیس کنال نو مرلے کی دوبارہ پرانی قانونی حیثیت بحال کرائیں گے، ان شاءاللہ۔ وزیراعلٰی کی جانب سے ایک سو بیس کنال کی ڈکٹیشن آئی ہے مگر وہ کوئی نوٹیفکیشن نہیں ہے اور نہ ہی ہم اپنے موقف سے دستبردار ہوں گے۔ پی ٹی آئی اگر ایسا سوچتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔
حجت الاسلام نقوی نے تاکید کی: ہماری کافی ساری میٹنگز ہوتی رہی ہیں۔ شیعہ علماء کونسل، ایم ڈبلیو ایم، آئی ایس او، شیعہ ینگ مین، تحفظ کوٹلی امام کمیٹی سمیت تمام دیگر تنظیموں کے ساتھ یہی طے پایا ہے اور تمام اسی بات پر متفق ہیں کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی مکمل اراضی تین سو ستائیس کنال نو مرلے ہم مکمل طور پر واپس لیں گے اور اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان سب سے ہٹ کر مجلس وحدت اسی موقف پہ ہی کاربند رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم کے کیمپ میں اہلسنت برادران بھی آتے رہے ہیں اور انہوں نے اظہار یکجہتی بھی کیا ہے۔ ہماری جدوجہد جاری رہیگی، ہمارا مین ایجنڈا یہی ہے اور یہی رہیگا۔ ہم جب تک زندہ ہیں، اس موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہم اس میں سرخرو ہوں گے، ان شاء اللہ
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین راجہ ناصر عباس جعفری مورخہ 7 جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کریں گے، اس موقع پر وہ شہید سید عرفان شیرازی کی پہلی برسی کے موقع پر کی جانے والی مہدی برحق کانفرنس سے خصوصی خطاب کریں گے کہا: اس دورہ کا ایک مقصد مسئلہ کوٹلی امام حسین (ع) بھی ہے۔ جس کی قیمتی اراضی ناجائز قابضین سے واگزار کرانے اور اس کی پرانی قانونی حیثیت بحال کرانے کیلئے کوٹلی امام حسین (ع) میں ایک احتجاجی کیمپ عرصہ چھ ماہ سے لگا ہوا ہے۔ قائد وحدت کیمپ میں بھی شریک ہوں گے اور اس معاملے پر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔ اس کے علاوہ اہل تشیع پر حالیہ دہشت گردانہ حملوں اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کے نتائج و اثرات پر بھی بات کریں گے۔
ایم ڈبلیو ایم ڈی آئی خان کے ذمہ دار نے تاکید کی: مختلف سیاسی جماعتوں نے ممکنہ انتخابات کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم سے رجوع کیا ہے، میں ان جماعتوں کے نام نہیں لینا چاہتا، جتنی بھی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، ان کی خواہش یہی ہے کہ مجلس وحدت مسلمین انتخابات میں ان کے ساتھ الحاق کرلے۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کے مسئلہ کی وجہ سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اس حوالے سے ہم ابھی کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ ظاہر ہے کہ جو جماعت ہمارے ساتھ تعاون کرے گی تو ہم بھی اس کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ہمارے مسائل قومی ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو مجلس وحدت مسلمین کا تعاون اسی صورت میں حاصل ہوگا، جب وہ جماعت ہمارے قومی مسائل میں اخلاص کیساتھ تعاون کرے گی۔ فی الوقت ہمارا بڑا مسئلہ کوٹلی امام حسین (ع) کا ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰