رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاراچنار میں مطالبات کی منظوری کے لیے جاری احتجاجی دھرنے سے اظہار یکجہتی کے لیے اسکردو میں مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام یادگار شہداء اسکردو پر بھی دھرنا دیا گیا۔ اس دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے تمام مذہبی اور چند سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی۔
دھرنے میں شیعہ علماء کونسل کے علماء اور کارکنان کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس سلسلے میں مرکزی جامع مسجد سے احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی جو کہ یاد گار شہداء پر پہنچ کر ایک بہت بڑے احتجاجی جلسے کی صورت اختیار کر گئی۔ احتجاج میں شیعہ علما کونسل، انجمن امامیہ، آئی ایس او، جے ایس او، آئی او، پی پی پی، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک وغیرہ نے شرکت کیں۔
اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ فدا حسن عبادی، مجلس وحدت کے ضلعی سربراہ شیخ فدا علی ذیشان، آئی ایس او کی نمائندگی میں مرکزی سیکرٹری اطلاعات نسیم کربلائی، جے ایس او کے نمائندے، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت شیخ احمد علی نوری، قم و نجف کے علماء کی نمائندہ عالم دین، مجلس علماء شیعہ کے مرکزی سربراہ علامہ مرزا یوسف حسین، پیپلز پارٹی کے رہنماء عبد اللہ حیدری، پی ٹی آئی کے رہنماء سید امیر شاہ کاظمی اور آغا علی رضوی نے خطاب کیا۔
صوبائی سربراہ مجلس وحدت آغا علی رضوی و دیگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا مطالبہ وہی ہے جو پاراچنار میں وارثین شہداء کے ہیں۔ ان کے تمام تر مطالبات کو من و عن قبول کرکے عملدرآمد کرنے تک ہم انکے شانہ بشانہ ہونگے اور کسی بھی ظالم و جابر کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ سکیورٹی اداروں کے جن ذمہ داروں کو آرمی چیف نے معطل کیا ہے وہ خوش آئند بات ہے لیکن صرف معطلی کافی نہیں۔ ان کی نا اہلیوں کی تحقیقات کرکے کڑی سے کڑی سزا دینا ضروری ہے تاکہ ملک میں اس طرح کی ناامنی کا سد باب کیا جائے۔
آغا علی رضوی نے کہا کہ ہم پاراچنار کے شہداء کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی ساتھ گلگت بلتستان میں بھی متعصبانہ حکومتی پالیسیوں کو بھی ہم نہیں کسی صورت نہیں مانتے۔ حکومت ہوش کے ناخن لیں اور ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم گزشتہ حکومت کی طرح تمہیں ذلیل و رسواء کریں۔ عالمی سامراجی طاقتوں اور ان کے زیر نگیں دہشت گردی پھیلانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سعودی اتحاد اسرائیلی پالیسیوں کو سپورٹ کرنے کیلئے بنائی گئی ہے، اور انہی کے زیر اثر دنیائے اسلام میں انسان کش، درندہ جماعتوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے، جسکی ایک چھوٹی مثال پاراچنار میں کاروائی کرنے والے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ سانحہ پاراچنار عین اسوقت پیش آنا قابل غور ہے جب ملک کے وزیراعظم کرپشن کیسز میں بری طرح پھنس چکے ہیں، اور ہر روز انکے چہیتوں کو کٹہرے میں کھڑے کرکے ذلیل و رسواء کیا جارہا ہے۔ ایسے میں دہشت گردی کے واقعات کا ہونا اور اس پر حکومتی ذمہ داران کی عدم توجہی بہت سے سوالات کو جنم لینے پر مجبور کررہے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ حکومت عوامی جان و مال کا تحفظ چاہتے ہی نہیں، بلکہ شاید وزیراعظم کو یہ تک نہیں پتا کہ پاراچنار پاکستان کا حصہ بھی ہے۔
صوبائی حکومت کی بلتستان کیساتھ سوتیلی ماں کا سلوک، اسکردو روڈ کی تعمیر، آئینی حقوق اور متعصب نون لیگی حکومت کیجانب سے کی جانیوالی نااہلیوں پر بھی مقرریں شدید نکتہ چینی کی اور حکومتی وزرا و ذمہ داران کی ناقص کاکردگی کی بھرپور مذمت کی۔ آخر میں اسکردو دھرنا بھی پاراچنار دھرنے کے ساتھ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔/۹۸۸/ ن۹۴۰