رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی اصفھان سے رپورٹ کے مطابق، سرزمین ایران کے مشھور عالم دین حجت الاسلام سید حسین مؤمنی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اعمال کی قبولیت نماز کی قبولیت پر منحصر ہے کہ اگر نماز قبول ہوگئی تو دیگر اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز رد کردی گئی تو دیگر اعمال بھی رد کر دیئے جائیں گے ۔
انہوں نے بیان کیا: نماز دین کا ستون و اساس ہے اور دین کی اصل و اساس پر توجہ انسان کے عاقل ہونے اور راہ ہدایت پر گامزن ہونے کی نشانی ہے ، اسلام میں نماز کی اس قدر اہمیت زیادہ ہے کہ تمام اعمال کی قبولیت نماز کی قبولیت پر منحصر ہے کہ اگر نماز قبول ہوگئی تو دیگر اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز رد کردی گئی تو دیگر اعمال بھی رد کر دیئے جائیں گے ۔
حجت الاسلام مؤمنی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ حضرت امام حسین (ع) سے رابطہ چاہے وہ جس مقدار میں اور جس طرح کا بھی ہو ، انسان کی ہدایت کا سبب ہے کہا: حقیقت یہ ہے کہ شیعہ تہ دل سے حضرت امام حسین (ع) سے محبت کرتے ہیں اور یہ محبت انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتی ہے ، مجلسوں میں شرکت معرفت کی طلبگار ہے کہ جسے کچھ لوگ نہیں سمجھ پاتے اور تنز کرتے ہیں کہ کیوں اس قدر مجسلیں کرتے ہو ۔
انہوں نے مزید کہا: اهل بیت(ع) کی مصیبتیں عام انسانوں کی مصیبتوں سے کہیں مختلف ہیں ، ہم انسانوں کی مصیبیتں اور بلائیں معمولا ہماری گناہوں کا نتیجہ ہیں مگر اهل بیت(ع) کی مصیبت امتحان اور مقام قرب الھی تک پہونچنے کے لئے ہے ۔
حجت الاسلام مؤمنی نے یاد دہانی کی: عاشور کے دن حضرت امام حسین (ع) پر مختلف قسم کی مصیبتیں پڑیں اور آپ نے صبر سے کام لیا ، حضرت امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں کہ عظیم مصیبتوں اور بلاوں نے میرے جد مظلوم کا احاطہ کر رکھا تھا اور آپ کو مختلف حربے سے شھید کیا گیا ۔
انہوں نے بیان کیا: حضرت امام حسین(ع) کے جڑے رہنا معاشرے کو بیمہ کردیتا ہے نیز جوانوں کی حضرت امام حسین(ع) سے قربت ، اسلامی ممالک میں پیروزی کا سبب ہے ، امام حسین علیہ السلام پر گریہ ، عین معرفت ہے جو لوگ حضرت پر آنسو بہانے کے مخالف ہیں وہ بزم سے نکل جائیں ۔
حوزه علمیہ کے استاد نے آخر میں یاد دہانی کی: حضرت امام حسین(ع) پر رونے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ یہ گریہ انسان کو جہنم سے نجات دلائے گا ، امام حسین(ع) پر گریہ معرفت کا سرچشمہ ہے ، امام حسین(ع) کے لئے ایک آہ سرد کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ امام حسین(ع) خود طاھر ہیں اور دوسروں کو بھی پاک و طاھر کرتے ہیں ۔/۹۸۸/ ن ۹۷۳