رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، برسوں پہلے جب مجھے حوزہ علمیہ میں آئے فقط ایک ہی سال کا عرصہ گزرا تھا ، مگر ہمارے علاقہ کے لوگوں کی نگاہیں مجھے بزرگ علماء کے مانند دیکھ رہی تھیں، اس وقت ایک جوان نے ہم سے ایک اہم سوال کیا تحا جو شاید آج بھی سوشل میڈیا پہ گھوم رہا ہو ۔
جب ہم سے یہ سوال پوچھا گیا تو اس کا جواب واضح تھا ؛ مگر کسی سوال کا جواب جاننا ایک بات اور اس جواب کا طرز بیان دوسری بات ہے ۔
ہم نے اس وقت اس سوال کا جواب تو دے دیا تھا مگر نہیں معلوم سامنے والا بھی میرے جواب سے مطمئن ہوا تھا یا نہیں ؟!
سوال یہ تھا : کیا روزہ رکھنے کا فلسفہ صدر اسلام کے مسلمانوں کا فقر اور ان کی ناداری ہے ؟ مگر آج جب ہمارے پاس ہے جو پھر روز رکھنے اور ان تکلیفوں کے برداشت کرنے کے کیا معنی ہیں ؟
صدر اسلام کے مسلمانوں کی حالت
یہ بات کہ در صدر اسلام کے مسلمان اقتصادی فقر سے روبرو تھے ایک صحیح بات ہے ، شعب ابی طالب پر کفار کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کا جو تاریخ میں تذکرہ ہے وہ ناقابل بیان ہیں ۔
ایک سہ سالہ پابندی اور محاصرے میں مرد و زن پورے دن میں ایک عدد کھجور کھانے پر اکتفا کرتے تھے اور کبھی اس ایک خرمے کو بھی دو نیم کردیا جاتا تھا ۔
اس زمانہ میں بھوک کا پریشر اتنا زیادہ تھا کہ "سعد وقاص" کا کہنا ہے کہ ایک شب مجھے ایسا احساس ہوا کہ اب دم نکل جائے گا تو میں وادی سے باہر نکل آیا ، اتفاقا اونٹ کی سوکھی کھال دکھی، ہم نے اسے اٹھایا اور دھویا ، جلایا اور کچلا پھر تھوڑا پانی ڈال کر گوندھا ، اس طرح ہم نے تین دن گزارے ۔(1)
قرآن نے بھی سوره "سبأ" کی 35 و 36 ویں آیت میں اس واقعہ کی جانب اشارہ کیا ہے ، جب مالدار طبقہ پیغمبر اسلام (صل الله علیه وآله) کو طعنہ مارتا تھا کہ مٹھی بھر فقیر اور نادار تم پر ایمان لائے ہیں ، فقرو ناداری کو مسلمانوں کے لئے شرم کا باعث اور اپنے مال و دولت کو قرب الھی کا سبب جانتے تھے تو ایت نازل ہوئی اور اسے غلط فکر بتاتے ہوئے اس کا جواب دیا:
وہ کہتے ہیں کہ میری اولادیں اور میری دولت سب سے زیادہ ہے اور کوئی ہمیں عذاب نہیں دے سکتا تو اے پیغمبر کہدیجئے کہ یہ میرا خدا ہے جو روزی عطا کرتا ، وہ جس کی روزی کو چاہئے فراوان کردے اور جس کی روزی کو چاہئے کم کردے ، مگر زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ۔(2)
لہذا صدر اسلام کے مسلمانوں کا فقر اور ان کی ناداری ایک مسلم بات ہے مگر کیا روزہ بھی اسی وجہ سے واجب ہوا ؟
روزہ کا اصلی فلسفہ ، تقوائے الھی کی تمرین ہے
اگر کسی کے پاس ذرا سی بھی اسلام کے سلسلے میں معلومات موجود ہو تو اس سوال کا کئی جواب دے سکتا ہے مگر اس تحریر میں فقط ایک قرانی جواب کہ جو روزہ کے فلسفہ اور اس کی تاریخ و ہسٹری کی جانب اشارہ گر ہے پر ہم اکتفاء کرتے ہیں ۔
خداوند متعال نے سوره بقره آیہ 183 ویں میں فرمایا:"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"؛ اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔
مذکورہ آیت میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ روزہ رسول اسلام کے زمانے میں واجب نہیں ہوا جیسا کہ مفسِّر بزرگ اسلام علامہ طباطبائی(رحمت الله علیہ) نے تفسیر المیزان میں اس آیت کے ذیل میں فرمایا ہے کہ روزہ اسلام سے پہلے واجب ہوا ہے ۔
اور دوسرے یہ کہ اس آیت کے آخر میں خود فلسفہ روزہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ " یعنی روزہ گناہوں سے دوری کے لئے واجب ہوا ہے ، روزہ طھارت کی تمرین ہے ، آنکھ ، کان اور زبان و۔۔۔ کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کی تمرین ہے ، یا ایک جملے میں یوں کہوں کہ روزہ تقوائے الھی کی تمرین ہے ۔
کیا جو بھی روزہ رکھے متقی بن جاتا ہے ؟
کیا ہر روزہ دار متقی ، پرھیزگار اور اچھا انسان بن جاتا ہے ؟ ہم نے بہت سارے انسانوں کو دیکھا ہے کہ وہ روزہ رکھتے ہیں؛ مگر انہیں بجز سختی ، مشقت ، بھوک و پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں یہ نہیں آیا کہ جو بھی روزہ رکھے یقینا متقی بن جائے گا بلکہ ارشاد ہے کہ روزہ رکھو تاکہ متقی بن سکو ۔
روزہ رکھ کر وہی متقی بن سکتا ہے جو حقیقی روزہ دار ہوگا ، جیسے منھ روزہ سے رہے ویسے ہی تمام اعضاء روزے سے ہو ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ " جس گھڑی روزہ رہو کوشش کرو تمھاری آنکھ ، کان اور زبان ، بال، کھال اور دیگر اعضای بھی روزہ رہیں ، جس دن روزہ رہو وہ دن عام دنوں کے مانند نہ ہو ۔
___________________________________
(1)فرازهایی از تاریخ پیامبر اسلام(صل الله علیه وآله)-آیت الله سبحانی/ص149و150و152
(2) وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ- قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ(سباء/35و36)
(3)«اذا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ وَ عَدَّدَ اشْياءً غَيْرَ هذا...وَ لا يَكُونُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِكَ»(تهذيب شيخ طوسى/ج 4/ص 194)
/۹۸۸/ ن۹۷۰