رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ۲۰۱۵ میں شاہ سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد کئی اقدامات پہلی بار دیکھنے میں آئے ہیں، جس سے وہاں کا ماحول تیزی سے تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔
شاہ سلمان ملک میں امریکہ اور اسرائیل کی مرضی کے مطابق اصلاحات لارہے ہیں۔
سعودی عرب میں گزشتہ چند سال سے اصلاحاتی منصوبے کے تحت تیزی سے بہت بڑی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔
سعودی عرب میں 2018 میں سینما گھر کھو لے گئے اور عورتوں کو بھی اسٹیڈیمز میں کھیلوں کا تماشا دیکھنے اور ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی۔
سعودی عرب میں گزشتہ برس پہلی بارکسی خاتون کو مرد اینکر کے ساتھ ٹی وی پروگرام پیش کرنے کی اجازت دی گئی ،وہیں سعودی عرب کی پہلی تھیٹر اداکارہ بھی سامنے آئی۔اور اسی سلسلے کے تحت ہی رواں برس اپریل میں پہلی بار سعودی عرب کے 5 ہزار سالہ قدیم کھنڈرات میں میوزک فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔
اور اب خبر سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں نائٹ کلب کھولا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تقریب کی ویڈیو میں مرد و خواتین کو ایک کلب میں دیکھا گیا تھا اور سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تقریب جدہ میں کھلنے والے نئے نائٹ کلب میں ہوئی۔
سوشل میڈیا پر تقریب کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صارفین نے مختلف قسم کی پوسٹنگ شروع کردیں اور دعویٰ کیا کہ اس نائٹ کلب میں اگرچہ الکوحل دستیاب نہیں ہوگی، تاہم وہاں پر لباس کی کوئی قید نہیں ہوگی۔
الجزیرہ کے مطابق متعدد مقامی نیوز ویب سائٹس اور اداروں نے جدہ میں 13 جون کو نائٹ کلب کھلنے کی رپورٹس شائع کیں اور نائٹ کلب کو " حلال کلب " کا نام دیا۔رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ نائٹ کلب کھولے جانے کی افتتاحی تقریب میں امریکی گلوکار اور ریپر نی یو نے بھی پرفارمنس کی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہےکہ نائٹ کلب میں لوگ موسیقی پر رقص کر رہے ہیں اور تقریب میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی دکھائی دے رہی ہیں۔
عرب ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں اس سے قبل وہابیت کے سائے میں یزیدی اور معاویائی اسلام کا وسیع پیمانے پر پرچار کیا گیا جس کے نتیجے میں طالبان، داعش اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں اور اب سعودی عرب میں امریکی اور صہیونی اسلام کو فروغ دینے کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ لگایا جارہا ہے اس طرح سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور اس کے بیٹے محمد بن سلمان نے حرمین الشریفین کی پاسبانی کے بجائے بے حرمتی کا آغاز کردیا ہے۔