شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ 6 جولائی یوم فقہ جعفریہ مسلم اسکالروں، محققوں، مجتہدوں اور فقیہوں کی علمی اور تحقیقی کاوشوں سے استفادہ اور تجدید عہد کا دن ہے، آئین پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں، مگر ایک عرصہ سے آئین کی دفعہ 227 کی توجیہ کے تقاضے مسلسل نظر انداز کئے جا رہے ہیں، مسالک اور مکاتب کے نظریئے اور عقیدے کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ تمام مکاتب فکر کو ان کے مذہبی، شہری، آئینی اور بنیادی حقوق نہیں دیئے جا رہے، بلکہ ان کی مذہبی، شہری اور بنیادی انسانی آزادیوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کی صدائے احتجاج کو روکنے کے لیے ظالمانہ انداز اختیار کئے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک بڑے المیہ کا خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے 6 جولائی کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اگر غور نہ کیا گیا تو پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوگی، ذمہ داران ماضی سے سبق سیکھیں اور عبرت حاصل کریں، جبکہ عوام بھی ملک و قوم کے خلاف ہونیوالی سازشوں کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔ یوم فقہ جعفریہ فرقہ واریت کی نفی اور وحدت کا یوم ہے، افسوس اس یوم کے خلاف کچھ بددیانت لوگوں نے الزام تراشیوں کے تانے بانے بنے اور جھوٹا پراپیگنڈہ کیا۔ انہوں نے یوم نفاذ فقہ جعفریہ کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ 6 جولائی 1980ء کے اسلام آباد کنونشن میں عوام نے جائز، اصولی اور منطقی مطالبہ کیا کہ اسلامائزیشن کے عمل میں تمام مکاتب فکر کے عقائد و نظریات کا احترام اور ان کے شہری و مذہبی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں مذہبی و شہری آزادیاں دی جائیں، اس مقصد کے لیے طاقت و اختیار کے مرکز وفاقی دارالحکومت میں عوامی کنونشن کے دوران ایک فرد نے جام شہادت بھی نوش کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ تاریخ ساز دن آئینی، قانونی، مذہبی اور شہری حقوق کے حصول کی خاطر سنگ میل قرار پایا اور قائد مرحوم علامہ سید محمد دہلوی ؒ‘ قائد بزرگوار علامہ مفتی جعفر حسین ؒ اور قائد شہید علامہ عارف الحسینی ؒ کی فکر سے الہام لیتے ہوئے اپنے آئینی حقوق کے دفاع اور شہری آزادیوں کے تحفظ تاریخ کو دہرایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 6 جولائی کا دن عوام کے ان جائز حقوق کے حصول کا دن ہے، جو آئین نے تمام مکاتب فکر کو دیئے ہیں، یہ دن وحدت امہ کے لیے سنگ میل تھا اور اس دن تمام مسالک اور مکاتب کے درمیان ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور رسوم و عبادات کے احترام کا دائرہ کار واضح اور مشخص کیا گیا، یہ دن قطعاً کسی ایک مسلک کی دوسرے مسلک کے خلاف محاذ آرائی نہیں تھی، بلکہ اس وقت اسلامائزیشن کے جاری عمل میں وسعت نظری اختیار کرنے اور آئین کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انکا کہنا ہے کہ تمام فقہوں کو مدنظر رکھ کر سب کے حقوق کی پاسداری کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود تھا، لیکن بدقسمتی سے ملک کی پالیسی سازی کے مراکز پر حاوی کوتاہ نظروں نے اس طرف توجہ نہ دی اور غلط رپورٹوں کا سہارا لے کر زور آوری اختیار کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام مسالک اور مکاتب کے نظریئے اور عقیدے کا خیال نہیں رکھا جا رہا، تمام مکاتب فکر کو ان کے مذہبی، شہری، آئینی اور بنیادی حقوق نہیں دیئے جا رہے، بلکہ ان کی مذہبی، شہری اور بنیادی انسانی آزادیوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کی صدائے احتجاج کو روکنے کے لیے ظالمانہ انداز اختیار کئے جا رہے ہیں، لہذا 6 جولائی کے دن ہمیں تجدید عہد کرنا چاہیئے کہ ہم ایک بار پھر نئے حوصلے اور نئے جذبے کے ساتھ اپنے حقوق کی جدوجہد تیز کریں گے، پاکستان اور پاکستانی عوام کو درپیش سنگین خطرات کے ازالے اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے میدان عمل میں آئیں گے اور ملک و عوام کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گے۔ /۹۸۸/ ن