رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت عبّاس سلام الله علیه کی عظیم شخصیت میں ظاهری جمال اور باطنی کمال دونوں یکجاجمع ہوگئے تھے .آپ اتنےزیادہ خوبصوت اور نورانی تھے که آپ کو«قمر بنی هاشم» کے لقب سےملقب کیا گیا تھا .
باسمہ تعالیٰ
ولادت حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام
حجت الاسلام سید حمیدالحسن زیدی
الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
حضرت باب الحوائج ابوالفضل العبّاس (علیه السلام) شیعوں کے پہلے امام مولائے کائنات حضرت امام علی (ع) وجناب امّالبنین (س)کے فرزند ارجمند تھے آپ کی ولادت باسعادت ۴-شعبان سنہ ۲۶ هجری کو مدینه منوره میں ہوئی. آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمه بنت حزام بن خالدتھیں جوقبیلہ بنی کلاب کی چشم وچراغ تھیں جن کے خاندان کےتمام بزرگ عرب کے بہادر جواں مردوں میں سے تھےجو اپنی شجاعت اور جواں مردی میں زباں زد خاص وعام تھے۔
حضرت امام علی (ع)، نےحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ۱۰ سال بعد جناب امّ البنین (س)سے شادی کی.اس کے بعدسے اس عظیم خاتون نے حضرت زهرا (س) کے بچو ں کی سپرستی فرمائی انھوں نےاپنےبچوں سے زیادہ محبت کےساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےبچوں کاخیال رکھا.حضرت امّ البنین سلام اللہ علیہا اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھیں کہ انھیں فاطمہ کہ کربلایا جائے وہ کہتی تھیں:مجھے فاطمه کہ کر نہ بلایا کریں اس لیے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اس نام کو سن کراپنی ماں کی یادمیں غمزدہ ہوجاتے ہیں میں انھیں غمزدہ اور پریشان نہیں دیکھ سکتی.
حضرت فاطمه بنت حزام (س) کو«امُّ البنین» بیٹوں کی ماں کےنام سےاس لئے یاد کیاجاتا ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام سے شادی کے نتیجہ میں آپ کےیہاں چار بیٹوں کی ولادت ہوئی تھی جن کے اسماء گرامی اسطرح ہیں جناب عباس(ع)، جناب عون(ع)،
جناب جعفر (ع)1ورجناب عثمان(ع) تھے.
جناب ام البنین (س) کے یہ چارو بیٹے روز عاشورہ سنہ ۶۱ هجری کو کربلا میں اپنے بھائی اورسیدو سردار حضرت سیدالشهداء (ع) کے ساتھ شهادت کےعظیم درجہ پر فائز ہوئے.
القاب حضرت ابوالفضل علیه السلام
حضرت عباس (ع)کی کنیت «ابوالفضل» اور آپ کے القاب «قمر بنی هاشم»، «قمر العشیره»، «باب الحوائج»، «سقای کربلا»، «ساقی عطاشا»، «علمدار کربلا»، «صاحب لواء»، «حامل لواء»، «عبد صالح»، «طیار»، «ابوقربه» (صاحب مشک)، «عمید»، «صابر»، «محتسب» و«مواسی» (فداکار) وغیرہ ہیں. جناب عباس بن علی (ع) کوان کےخوبصورت' جذاب اور نورانی چہرہ کی وجہ سے«قمر بنی هاشم» اور صحرای کربلاکی تپتی ہوئی دھوپ میں خیموں تک پانی پہونچانے کی جد وجہد کی وجہ سے «سقا» کےلقب یاد کیا جاتا ہے.
فضائل حضرت عباس علیه السلام کے بعض گوشے
حضرت عبّاس سلام الله علیه کی عظیم شخصیت میں ظاهری جمال اور باطنی کمال دونوں یکجاجمع ہوگئے تھے .آپ اتنےزیادہ خوبصوت اور نورانی تھے که آپ کو«قمر بنی هاشم» کے لقب سےملقب کیا گیا تھا؛
امام جعفر صادق علیه السّلام، اپنےچچاحضرت عبّاس سلام الله علیه کوآسمانی صفت «عبد صالح» سے توصیف فرماتےہوئےارشاد فرماتےہیں: «اَلسَّلامُ عَلَیکَ اَیهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ».
اسی طرح امام جعفرصادق علیه السلام فرماتے تھے: «آپ(جناب عباس) انتہائی مضبوط اور مستحکم ایمان کے حامل تھے».امام علیہ السلام ایک دوسرے بیان میں ارشاد فرماتےهیں :
جناب عباس علیہ السلام نافذالبصیرت اورانتہائی دقیق تھے». زیارت مقدّسه ناحیهٔ میں واردہوا ہے: «میں گواهی دیتا ہوں کہ آپ خدا'رسول اوراپنے بھائی کے خیر خواہ تھے».
امام سجاد علیه السلام فرماتے ہیں:خداکی رحمت ہومیرےچچاجناب عبّاس (ع) پر!خدا!کی قسم انھوں نےایثارو فداکاری سے کام لیااور میدان جنگ میں شجاعت وجواں مردی کامظاہرہ کرتےہوئے دشمن کےقلب لشکر پر حملہ کیا دشمنوں کے لشکرنے آپ کوگھیرلیا'آپ کےلیےمزاحمت پیداکی اورآپ کو آزارو اذیت کا نشانہ بنایایہاں تک کہ آپ نے اپنی جان اپنے بھائی پر نچھاورکردی آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئےخداوند عالم نے آپ کو جنت میں دو پر عطا فرمائے ہیں جن کے ذریعہ آپ ملائکہ کےساتھ جنت میں پرواز کرتے ہیں جس طرح جناب جعفر ابن ابیطالب کو بھی دو پر عطا فرمائے تھے یقینا خدا وند عالم کے نزدیک جناب عباس علیہ السلام کا وہ عظیم مرتبہ اور مقام ہے کہ قیامت کے دن تمام شہدا اس پر رشک کریں گے.
اسی طرح حضرت علی علیه السلام کے ارشادکے مطابق حضرت عباس علیه السلام کاخداوندعالم کی بارگاہ میں بڑا عظیم درجہ اور بہت بلند مرتبہ ہے.
خداوندعالم نےان دونوں ہاتھوں کے بدلےجوحضرت عباس علیہ السلام نےعاشورکےدن قربان کیے ہیں انھیں جنت میں دو پرعطا کیے ہیں اور وہ جعفرطیار کی طرح جنت کی فضاؤں میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں.[1]
جب حضرت علی علیه السلام بستر شهادت پر تھے، حضرت عباس علیه السلام کو بلایااورانھیں سینہ سے لگایاکر فرمایا: «ولدی و ستقر عینی بک فی یوم القیامه؛ اے میرے بیٹےعنقریب تمھارے ذریعہ قیامت کے دن میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان فراہم ہوگا(2).
حضرت امام حسین علیه السلام نے بارهامختلف مناسبتوں پر حضرت عباس علیه السلام کی شأن میں فضائل وکمالات کی گهرافشانی فرمائی ہے، جیسے شب عاشور جناب عباس علیه السلام سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: یا عباس ارکب بنفسی یا اخی حتیٰ تلقاهم فتقول لهم مالکم: ای عباس،اے میرے بھائی جاؤ میری جان تم پر قربان ہوجائےتم اپنےگھوڑے پر سوار ہواوردشمنوں سے جاکر کہو تمہیں کیا ہواہےکہ تم ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو؟[3]
اس عبارت میں امام حسین علیه السلام نےجناب عباس علیہ السلام کے بارے میں انتہائی بلند اورمحبتانہ عبارت استعمال کرتے ہوئے ان کی توصیف وتعریف فرمائی ہے.
حضرت عباس(ع)کا علمی مقام و مرتبہ
حضرت عباس (ع) کی ولادت باسعادت ایسے گھرانےمیں ہوئی جو علم وحکمت کا خزانہ تھا، جناب عباس علیہ السلام نےامیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام,امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے کسب فیض کیاہے اوربلندترین علمی مرتبہ پر فائز ہیں. حضرت ابوالفضل العباس(ع) ائمہ معصومین علیھم السلام کی اولاد کے فقہا اور دانشمندوں میں سے تھے، جیسا کہ بزرگ علماءومحدثین نے ان کی شان میں بیان کیا ہے: "هو البحر من اى النواحى اتيته" و یا "فلجته المعروف و الجواد ساحله".
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے عموئ بزرگوار حضرت عباس (ع) کی شان میں فرمایا: كان عمنا العباس نافذا البصيره. " ہمارےچچاعباس علیہ السلام نافذ البصیرت (ذہین سمجھدار اور دقیق) تھے".
مرحوم علامه محمد باقر بيرجندى نےبھی تحریر کیا ہے: ان العباس من اكابر الفقها و افاضل اهل البيت، بل انه عالم غير متعلم و ليس فى ذلك منافاه لتعلم ابيه اياه. " بیشک حضرت عباس علیہ السلام بزرگ فقها اورخاندان نبوت کی نمایاں شخصیتوں میں سے تھے، بلكہ وہ عالم غیر معلم تھےاور اس کا اس بات سے کوئی ٹکراؤنہیں ہےکہ انھوں نے اپنے والد حضرت امام علی علیہ السلام سے کسب فیض کیا تھا.
...........................................
[1] العباس، سید عبدالرزاق مقدم، ص ۷۵.
[2] معالی السبطین، ج ۱، ص ۴۵۴.
[3] موسوعه کلمات الامام الحسین علیه السلام، معهد تحقیقات باقرالعلوم علیه السلام، قم، دارالمعروف، ۱۴۱۵ هـ ق، ص ۳۹۱.