٨؍ شوّال المکرم تاریخ کا وہ اندوہناک دن ہے جس دن نابغۂ روزگار حضرت علامہ سید عدیل اختر اعلی اللہ مقامہ کی وفات ہوئی۔
آپ کی ولادت آپ کے آبائی وطن قصبہ علی نگر پالی، جہان آباد، صوبہ بہار میں ٨٩٨١ عیسوی مطابق ٥١٣١ ھ میں ہوئی۔ آپ کا تاریخی نام عدیل اختر تھا۔
اس سال آپ کے فراق کے ۷۱ سال مکمل ہوگئے۔ آپ مدرسة الواعظین کے درج رجسٹر کے مطابق وہاں کے پہلے طالب علم اور دوسرے پرنسپل تھے۔ آپ نے واعظین کے زرین ابتدائی دور میں بے مثال تبلیغی دورے انجام دیکر مدرسہ کو چار چاند لگا دئے، اور ١٩٢٠ سے ١٩٣٦ تک رنگون، تبّت، پشاور، افریقہ کے جزایر و ۔۔۔ جاکر تبلیغی دورے کئے اور *شبھای پشاور* کے عظیم تاریخی مناظرہ میں حضرت سلطان الواعظین شیرازیؒ کے شانہ بشانہ رہے، جسکا ذکر شبھای پشاور میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
پھر آپ نے ١٩٣٦ سے ١٩٥١ تک مدرسة الواعظین میں قیام کے دوران بطور معلّم و مربی اور پرنسپل نسلوں کی تربیت فرمائی۔ مولانا نجم الحسن کرارویؒ سے لیکر مولانا شیخ محمد حیدرؒ کے دور تک طلاب کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ مولانا سید غلام عسکری اور مرحوم مولانا سید کاظم رضا اعلی اللہ مقامہما نے بھی آپ ہی کی آغوش تربیت میں جلا پائی۔
مدرسۃ الواعظین کے علاوہ دوسرے مدارس کے طلاب نے بھی آپ کی ذات سے فیوض و برکات حاصل کیے۔ منجملہ مولانا محمد شاکرؒ، مولانا علی عابد دامت برکاتہ، و۔۔۔۔ کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔ آپ نے ایک مختصر مدّت تک مشارع الشرائع جامعہ ناظمیہ میں بھی تدریسی فرایض انجام دئے۔
علامہ عدیل اختر طاب ثراہ کی شخصیت محققین و صاحبان قلم کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے۔ آپ کی علمی-تحقیقی کتابیں آج بھی اہل قلم کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ صلۂ تاریخ احمدی، صلح حسن(ع)، علمی خیانتیں، تدلیس شبلی، مسئلہ تقیہ، خلافة خیر البشر، رجال فکر و نظر، فلسفہ اسلام یا علم کلام و۔۔۔۔۔ جیسی اہم تحقیقی کتب اپنے آپ میں مثال ہیں۔
زندگی نے زیادہ وفا نہ کیا اور آپ نے صرف ٥٣ سال کی عمر میں ٨؍ شوال١٣٧٠ھ مطابق ١٩٥١ عیسوی میں مختصر علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا، اور حسینیہ غفرانمآب لکھنؤ میں سپرد خاک کئے گئے۔
عاش سعیداً و مات سعیداً۔
یہ ہمارا دینی اور اخلاقی وظیفہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں اور دین و مکتب تشیع کے مخلص خدمتگزاروں کی یاد کو زندہ رکھیں۔ لہذا آپ حضرات سے درخواست ہے کہ سورہ حمد و توحید کی تلاوت فرما کر مرحوم علامہ عدیل اخترؒ کی روح کو ارسال فرمائیں۔
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
منجانب: ولی العصر اکیڈمی زیر اہتمام، مکتبہ افادات علامہ عدیل اختر
ساتھ ہی انکے گرانقدر مفکر اور عالم وقت جناب سید ناصر حسین زیدی صاحب کا تذکرہ بھی ضروری جو خود تو شاید بادشاہ نہ تھے مگر مستند بادشاہ گر تھے۔
اپ ارسال فرمادیں اضافہ کردیا جائے گا، شکریہ