تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
سوشل میڈیا دور حاضر میں یقیناً ایک اہم ستون کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں اگر سوشل میڈیا کو خبر کا پہلا منبع قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یعنی اب خبر ٹی وی چینلز اور اخبارات میں شائع ہونے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر نشر ہوچکی ہوتی ہے، جس نے سوشل میڈیا کے استعمال کی اہمیت کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ جہاں سوشل میڈیا کے استعمال کے مثبت فوائد ہیں، وہاں ساتھ ساتھ ہی یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارا دشمن اسی سوشل میڈیا کو ہمارے خلاف نادان اور کچھ دانستہ لوگوں کی مدد سے استعمال کرتا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں کرتے ہیں، گذشتہ مہینوں میں عراق، لبنان سمیت دیگر ممالک میں مغربی ممالک کی این جی اوز کے تربیت یافتہ لوگوں نے حکومت مخالف مظاہروں کہ جن کا براہ راست فائدہ امریکہ کو تھا، کے لئے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔
اسی بات کے تناظر میں اگر ہم پاکستان کی بات کریں کہ جہاں مختلف مذاہب و مسالک سمیت اقوام و زبانیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ایک ایسا ملک جو سالہا سال سے ہی پڑوسی ملک ہندوستان کی سازشوں سے نبرد آزما ہے، پھر پاکستان کے عوام بھی بڑے جذباتی اور جوشیلے پائے جاتے ہیں، چاہے معاملہ مذہب و مسلک کا ہو یا سیاسی وابستگی کا ہو۔ سوشل میڈیا پر ہر دو کے بارے میں ایسے شدت پسند افراد ضرور ملتے ہیں کہ جو اپنی بات کو ہی درست منوانے کے لئے اپنے غصہ اور جذبات کا اظہار گندی زبان کے استعمال اور نہ جانے کس کس طرح سے کرتے ہیں۔ ایسے ہی ماحول میں ایسے افراد بھی موجود ہیں، جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور منصوبہ سازی کے تحت کسی کی مخالفت اور کسی کی حمایت میں کام کرتے ہیں۔
یہاں ایک اور بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی و مذہبی حالات اور خارجہ پالیسی کے عنوان سے پاکستان کو دور حاضر میں صرف سرحد سے بھارتی دشمن کا ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ نے بھی پاکستان کے لئے خطرات کو بڑھاوا دیا ہے۔ پاکستان کے ان مخصوص حالات میں کہ جہاں سرحد پر ایک طرف ہندوستانی جارح افواج ہیں تو دوسری طرف امریکی و اسرائیلی و بھارتی شیطانی مثلث ہے کہ جو پاکستان کے مذہبی و سیاسی ماحول سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ درج بالا تناظر میں بات کرتے ہوئے مثال پیش کرتا ہوں کہ ماہ رمضان المبارک میں سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ کچھ ٹی وی چینلز نے بھی مذہبی و سیاسی وابستگیوں کی آڑ میں کچھ ایسے ہی منفی اقدامات اٹھائے ہیں کہ جن کا براہ راست فائدہ یقیناً ملک دشمن قوتوں کو پہنچا ہے۔ میری مراد پاکستان میں مذہبی و عقیدتی جنگ اور فتنوں سے ہے۔
ماہ رمضان المبارک میں ٹی وی چینل پر بھی ایسی ابحاث کو شروع کیا گیا کہ جس سے مذہبی و عقیدتی فتنہ ابھرنے کا خدشہ تھا اور پھر بالآخر وہی ہوا، ایک ٹی وی پروگرام کے بعد دوسرا پروگرام اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوچکا تھا۔ پاکستان کے مخصوص مذہبی اور عقیدتی حالات سے ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی سے چلنے والی ایک نیوز ایجنسی نے شام میں صحابی رسول اکرم (ص) حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے مزار اقدس کی بے حرمتی کی خبر چلائی اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں اس خبر نے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور دہشت کا بازار گرم کر دیا۔ ایک مخصوص سوچ اور ایجنڈا کے تحت سوشل میڈیا پر فقہ جعفریہ کو نشانہ بنایا جانے گا۔ بعد ازاں وفاقی وزیر نور الحق قادری نے جب شام حکومت سے رابطہ کیا تو خبر آئی کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا، جس کو بنیاد بنا کر پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا طوفان کھڑا کیا گیا تھا۔ یہی وہ موقع تھا کہ جب ملک دشمن قوتوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نادان اور چند دانستہ افراد کی مدد سے پاکستان میں نفرتوں کا ماحول گرم کرنے کی کوشش کی، تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کو چھوڑ کر صرف پاکستان میں ہی حضرت عمر بن عبد العزیز (رض) کے مزار سے متعلق جھوٹی خبر پر منفی پراپیگنڈا کیا گیا جبکہ دیگر مسلم ممالک میں ایسی کسی خبر کی شنید ہی نہ تھی۔ دوسرے واقعات بھی پے در پے رونما ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ ایک مولوی صاحب نے اپنی ایک تقریر میں حضرت محمد مصطفیٰ (ص)، خاتم النبین کی دختر محترمہ سیدہ فاطمہ زہراء (س) کی شان میں گستاخی کی، جو یقیناً ایک مکتب فکر کے ماننے والوں کے لئے گراں گزری اور احتجاج ایک فطری عمل تھا۔ البتہ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہی مولوی صاحب کے ہم مسلک علماء اور اکابرین نے آگے بڑھ کر اس توہین آمیز گفتگو کی شدید مذمت بھی کی اور اس شیطانی ایجنڈا کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ البتہ سوشل میڈیا پر اس فتنہ کو بھی بھرپور پروان چڑھایا گیا، تاکہ ملک میں کسی نہ کسی طرح انارکی پھیلے اور دو مختلف سوچ اور فکر رکھنے والے مسالک باہم دست و گریباں ہو جائیں اور اس طرح سے مذہبی و عقیدتی جنگ گلی محلوں اور کوچوں میں آپہنچے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا کو لگام نہ دی جائے اور اسی طرح مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات جو اس طرح کے فتنوں کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اگر ان کے خلاف حکومتی سطح کے اقدامات نہ ہوں تو پھر معاشرہ جہاں ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان کی پاکستان دشمن سازشوں کا شکار ہو جائے گا، وہاں ساتھ ہی ساتھ پاکستانی معاشرہ اخلاقی گراوٹ، بے راہ روی جو کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے، اخلاقی پستی، بے ہودگی کی بدترین صورتحال اختیار کر لے گا۔ ہمارا ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم اور خاص طور پر پاکستان میں مذہبی و عقیدتی فتنوں کو جنم نہ لینے دیں، موثر سیاسی و دینی جماعتیں، اہل فکر و نظر اور ہر وہ پاکستانی کہ جسے بھی احساس ذمہ داری ہے کہ ہم ملک میں افراتفری نہیں چاہتے تو وہ اپنا کردار ادا کرے، خاص طور پر ایسے فتنوں کو روکنے کے لئے آگے آئیں کہ جو مذہب اور مسلک کی بنیاد پر پیدا کئے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیں اگر فتنوں کو اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے پروان چڑھایا جاتا رہے گا تو ملک تباہی و بربادی کے دہانے پر جا پہنچے گا۔
ہمارے معاشرے میں اخلاقی پستی، اخلاقی گراوٹ، بے ہودگی اور فتنوں کو لگام دینے کے لئے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا سمیت ہر اس میڈیا کو لگام دی جائے، جو اس کام کے انجام دینے میں شامل ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک میں نہ تو امن و امان باقی رہ پائے گا اور نہ ہی ملک کی طاقت۔ اس طرح کے فتنوں کو جنم دینے والوں کا ایک مخفی مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان کے امن و امان کو تباہ کرکے پاکستان کی فوجی قوت کو بھی کمزور کیا جائے۔ مسلم ممالک کی فوجی قوت کو کمزور کرنے کا ناپاک منصوبہ امریکہ و اسرائیل کا ہے، جسے وہ دنیا کے متعدد ممالک میں انجام دے چکے ہیں اور پاکستان کی فوجی طاقت ان کے نشانہ پر ہے۔ پاکستان میں ایک منصوبہ بندی کے تحت تمام مسالک میں ایسے لوگوں کو تیار کیا گیا ہے، جو ایک دوسرے کے مقدسات کی سوشل میڈیا کے ذریعے توہین کریں اور فتنہ پھیلائیں۔ کیا کوئی ذی شعور پاکستان یہ چاہے گا کہ پاکستان کو غیر ملکی ایجنٹوں اور احمقوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے۔
یہاں ہم سب کو بحیثیت پاکستانی ذمہ داری انجام دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر کوئی بھی شخص کسی بھی مسلک یا فرقہ کے لباس میں آکر کسی بھی مذہب یا مسلک کے مقدسات کی توہین کرتا ہے تو ہمیں اس توہین کرنے والے کو باقی مسلک اور مذہب والوں کے ساتھ برابر نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ یہ وہ دشمن کا نمک خوار ایجنٹ ہے، جو پاکستان میں تفرقہ انگیزی پھیلانا چاہتا ہے۔ حکومتی اداروں کو بھی چاہیئے کہ ایسے عناصر کے سوشل میڈیا اکاونٹس بند کر دیئے جائیں اور ٹی چینلز وغیرہ کے پروگراموں میں بھی ان کو دعوت نہ دی جائے۔ ہر پاکستانی شہری کا فرض ہے کہ ایسے ایجنٹ کو جو پاکستان کے عوام میں نفرت کے بیج بوتا ہے اور تفرقہ کی دعوت دیتا ہے، اس کو تلاش کریں، حکومت تک شکایت پہنچائیں، تاکہ اس کو قرار واقعی سزا ملے اور وہ آئندہ اپنے غیر ملکی آقاوں کی ایماء پر ملک دشمن سرگرمیوں سے دور رہے۔
مذہبی و عقیدتی فتنوں کے سوشل میڈیا پر جنم لینے اور اس کی ترویج کے معاملہ پر ہر طرف اور ہر مسلک کے علمائے کرام کو چاہیئے کہ جب بھی اس طرح کے اقدامات ان کے سامنے آئیں، فوری طور پر مذمت کریں، چاہے توہین کرنے والے ان کے ہم مسلک ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر پاکستان میں کسی مسیح مذہب کے ماننے والے کے مقدسات کی توہین ہوتی ہے تو سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ توہین کرنے والا چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اس کے خلاف اقداما ت کریں۔ اسی طرح ہر مسلک کے علماء و اکابرین اپنے اپنے مسالک کے لوگوں کی جانب سے کی جانے والی مذہبی و عقیدتی فتنہ پسندی کی شدید مذمت کریں اور اس سے اپنی قطع تعلقی کا اعلان کریں۔ اگر اس طرح کی تجویز پر عمل ہوا تو یقیناً ہم بہت سارے مسائل کا حل نکال لیں گے اور دشمن کو کامیاب بھی نہیں ہونے دیں گے۔ اپنے وطن عزیز کو بہت سارے خطرات اور نقصانات سے بھی بچا لیں گے۔
ہم ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کا آغاز کریں گے کہ جہاں کسی کے مقدسات کی توہین نہ ہوتی ہو، جہاں مذہب و عقیدت سے متعلق فتنوں کا جنم نہ ہوتا ہے۔ یقیناً اس کام کو کرنے اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے خاصی محنت درکار ہے۔ یاد رکھیں لوٹ کھسوٹ اور چوری ڈکیتی کی صورت میں ہم کسی مجرم کو گرفتار کرسکتے ہیں، اس کو سزا بھی دے سکتے ہیں، لیکن پاکستان میں امریکی و اسرائیلی و بھارتی ایماء پر پھیلائی جانے والی فرقہ وارانہ پرتشدد سوچ کے نتیجہ میں ہونے والی تقسیم ہر گھر کو متاثر کر دے گی۔ ہمیں ایسے فتنوں اور ان فتنوں کو پیدا کرنے والی قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہونا ہوگا۔ پاکستان اس لئے نہیں حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اخلاقی گراوٹ و پستی ہو، بے راہ روی ہو، بے ہودگی سمیت دیگر برائیاں ہوں بلکہ پاکستان اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں سب آپس میں محبت و آشتی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔/