آپ نے١٨٩٩ء کوایک علمی گھرانہ میں آنکھ کھولی ،آپکاآبائی تعلق موضع پتن ہیٹری ،ضلع بجنور یو۔پی کے زیدی سادات سے تھاآپ کے والد محترم کانام سیدآفتاب حسین اورآپ کے جدگرامی کانام سید غازی الدین حسن تھاآپ کے والد جناب مولانا مرحوم سیدآفتاب حسین دہلی کی شیعہ جامع مسجدمیں پیش نمازتھے ،دہلی میں ہی وفات پائی اوردرگاہ پنجہ شریف دہلی میں شہید رابع علیہ الرحمہ کے سرہانے مدفون ہوئے، یہی وجہ تھی کہ خطیب اعظم نے دہلی کواپنا وطن بنا لیا اور اسی نسبت سے تاحیات دہلوی کہلائے۔
مرحوم دہلوی صاحب چارسال کی عمرمیں یتیم ہوگئے تھے جبکہ پانچ سال کی عمرمیں والدہ کاسایہ بھی سر سے اٹھ گیاتھا،باوجود یتیم ہونے کے یہ تائیدخداوندایزدی تھی کہ آپ کی تعلیم وتربیت جلیل القدرعلمائے دین کی سرپرستی میں ہوئی ،آپ کی والدہ گرامی نے قرآنی تعلیم کے لئے آپ کوحافظ قاری سیدعباس حسین کے سپردکیا۔
والدہ کی وفات کے بعدآپکی سرپرستی مولانامیرزامحمدحسن اورمولاناسیدمحمدہارون نے اپنے ذمہ لی اورکافیہ تک تعلیم مکمل کرنے کے بعدآپ کوعلم وادب کے مرکزلکھنوروانہ کیاجہاں چارسال کے عرصہ تک مدرسہ ناظمیہ میں کسب فیض کیا، اسی طرح آپ نے یونیورسٹی کی اعلیٰ ترین عربی سندبھی اچھے نمبروں سے حاصل کی،آپ کی تعلیم وتربیت میںجن مشہورعلمائے دین کاکرداررہاان میں بالخصوس مندرجہ ذیل پانچ ہستیاں سرفہرست ہیں۔
١۔عالیجناب مولانامیرزامحمدحسن اعلیٰ اللہ مقامہ
٢۔عالیجناب مولانانجم الملتہ نجم الحسن اعلیٰ اللہ مقامہ۔
٣۔عالیجناب مولانامحمدہارون زنگی پوری اعلیٰ اللہ مقامہ جودوسوکے قریب گرانقدرعلمی کتابوں کے مصنف بھی تھے اوربڑے بڑے علماء کو ان کی شاگردی پرنازتھا۔
٤۔عالیجناب مولانامقبول احمداعلیٰ اللہ مقامہ جن کاترجمہ وحواشی قرآن آج بھی برصغیرمیں شہرہ آفاقی کی حیثیت کاحامل ہے۔
٥۔عالیجناب مولاناشیخ محمدطیب عربی مکی اعلیٰ اللہ مقامہ جواہل زبان اورعربی کے مایہ نازاستادتھے۔
جناب مرحوم دہلوی صاحب اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے بعدمذہب اہل بیت (ع)کی ترویج میں زندگی بسرکرنے لگے۔
چونکہ مکتب اہل بیت (ع) کی نشرواشاعت اورتبلیغ دین میں اہم کردارشہیدکربلاحضرت امام حسین علیہ السلام اوران کے انصارباوفاکی یادمیں منعقدکی گئی مجالس عزائے کاہے اورتاریخ کے مطابق ان مجالس عزا کاباقائدہ انعقاد واہتمام صادق آل محمد (ص)حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانے میں خود انہی کے حکم سے ہوا،جو تاہنوزجاری ہے اورانشاء اللہ تاقیامت جاری رہے گااس اہم سیاسی ومذہبی عبادت کے سلسلہ کوجاری رکھنے کے لئے صدیوں پرمحیط اس عرصے میں ہرملک وقوم میں اعلیٰ سے اعلیٰ خطیب اورذاکرین پیدا ہوتے رہے جنہوں نے دنیاکوفضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام سے روشناس کرایا،یہاں تک کہ برصغیرپاک و ہندمیں بھی جب اردوزبان نے عروج پایاتواس زبان میں چند ایسے نامورخطیب پیداہوئے جن کاتذکرہ تاریخ نے ہمیشہ کے لئے اپنے اندرمحفوظ کرلیا،انہی چندنامورہستیوں میں سے نہایت معروف،
مشہوراورصدواجب الاحترام شخصیت حضرت مستطاب عالی جناب مولاناخطیب اعظم سیدمحمددہلوی اعلیٰ اللہ مقامہ کی ہے،آپ کاانداز بیان اس قدردلنشین تھاکہ سننے والاآپ کے اندازتکلم سے مسحورہوکررہ جاتاتھا،مشکل ترین مسائل کوآسان ترین اورخوبصورت مثالوں کے ذریعے مومنین کے ذہن نشین کردینا آپ کی تقریروخطابت کی خوبی تھی اوریہی وہ منفردکمال تھا جو آپ کی ذہانت ، فصاحت وبلاغت اورعلمی مسائل پرمکمل عبورکانتیجہ تھا۔
آپ کے زمانے میں بھی خطابت کے میدان میں سیدالعلماء سیدعلی نقی نقن،حافظ کفایت حسین نجفی ،سیدابن حسن نونہروی،فاتح ٹیکسلا محمد بشیر ، حافظ سید ذوالفقارعلی شاہ، مرزا احمدعلی اور لقاعلی حیدری صاحب جیسے بہت سے شہرہ آفاق،ذی وقاراورعالی مقام نام موجودتھے،اوران تمام ترحضرات کے ہوتے ہوئے خطیب اعظم کا خطاب پانا کوئی معمولی بات نہ تھی.
علامہ سیدمحمددہلوی صاحب کویہ خطاب اس وقت ہندوستان بھرکے ہندو،مسلمان،سنی اورشیعہ عمائدین واکابرین نے بالاتفاق وبیک زبان ہوکرعطاکیا،جب کانگریس کے سرکردہ لیڈربیرسٹرپنڈت موتی لال نہروجوسابق وزیراعظم ہند پنڈت جواہرلال نہروکے والدتھے ان کے انتقال پر ہندوستان کے پایہ تخت دہلی کے وسیع وعریض میدان پریڈگراونڈمیں خواجہ حسن نظامی کے زیر اہتمام ایک تعزیتی جلسہ عام کاانعقادکیاگیاتھا،جس میںعمائدین شیعہ سے بطورخاص مولاناموصوف کو مدعو کیاگیاتھا اورتقریرکی بھی فرمائش کی گئی تھی،جب مولانا نے تقریر شروع کی توبجائے پنڈت موتی لال نہرو کی تعریف کرتے اپنے ماہرانہ اندازفصاحت وبلاغت سے خالق کائنات کی حمدوثناء کرتے ہوئے تخلیق کائنات کا موضوع اپنایا اور سائنسی اندازمیں قرآنی حوالوں سے اس پرروشنی ڈالی یہاں تک کہ اسی کائنات میں سمندروں کی تخلیق اوراس میں موتی بننے کے مراحل،ساتھ ہی ساتھ زمین میں جواہرات کی بتدریج تخلیق پر روشنی ڈالنامولاناکی ذہانت کاکمال تھا،تقریر کے اختتام پرحسن نظامی کی تحریک پرتمام عمائدین ملک نے آپ کو ”خطیب اعظم ” کاخطاب دیااورتاحد نگاہ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرنے اس کی تائید کی،آپ کے لئے یہ لقب اتنامقبول ہوا کہ آپ کے نام کاحصہ بن گیا۔
تقاریرکے میدان میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ تحریری میدان میں بھی موصوف بہت مقبول تھے ،یہی وجہ تھی کہ جب ١٩٤٣ ء میں نواب رضاعلی خان آف رام پورنے ادارہ تفسیرالقرآن قائم کیاجس میں متعددمایہ نازاور جید قسم کے علماء بھی شامل تھے تواس ادارہ کی سربراہی کے لئے خطیب اعظم کاانتخاب کیا،خطیب اعظم اپنے ذاتی ذوق تحریراوراس ادارہ کی اہمیت کے پیش نظردہلی سے رام پور تشریف لے گئے، اس دوران مجالس کے سلسلے میں بھی آپ کا باہرآناجانارہامگرمستقل قیام رام پور میں ہی رہااوراپنے سات سالہ قیام کے دوران شب وروز کی جانفشانی سے تفسیرقرآن کامقدمہ تحریرفرمایاجوتقریباًپانچ /چھہ سو صفحات پرمشتمل تھاکون اندازہ لگاسکتاہے کہ اس میں کیاعظیم علمی اورتحقیقی جواہرپارے ہونگے !
١٩٥٠ء میں آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی،لیکن صد افسوس کہ یہ علمی شاہنامہ اسی ادارہ میں رہ گیااور اس کے بعد اس سرکاری ادارہ میں بھی اس کاسراغ نہ مل سکا،مقدمہ تفسیرقرآن جیسے عظیم کارنامے کے علاوہ قیام پاکستان سے قبل آپ کی کئی تحریری کاوشیں دہلی سے طبع ہو چکیں تھیں جن میں مقتل ابی مخنف کتاب کاترجمہ،رسول اوران کے اہل بیت،قرآن اوراہل بیت،معجزات آئمہ اطہاراورترجمہ رسالہ وجوب نماز جمعہ جیسی اہم کتابیں شامل ہیں اوراسی طرح قیام پاکستان کے بعدکراچی سے ایک نہایت اہم کتاب ”نورالعصر” شائع ہوئی ،مگرافسوس کہ نورالعصرکے علاوہ باقی تمام کتابیں ناپیدہیں۔
تقریراورتحریرکے علاوہ خطیب اعظم کی رفاہی اوردیگردینی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں،قیام پاکستان سے قبل شیعہ ہوسٹل مظفرنگر اورشیعہ یتیم خانہ جھنگ کاقیام،نئی دہلی میں امامیہ ہال کی تعمیر،امامیہ یتیم خانہ کشمیری گیٹ دہلی اورشیعہ یتیم خانہ درگاہ پنجہ شریف دہلی کی سرپرستی کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد آپ کی دودینی خدمات نہایت ہی اہم ہیں جوہمیشہ کے لئے یادگاررہیں گیں۔
سب سے پہلا کام یہ کہ آپ نے اپناانتہائی قیمتی کتب خانہ جوموصوف کی زندگی بھرکی کمائی کے علاوہ چھ ہزارسے آٹھ ہزارتک کی نادروقیمتی کتب پرمشتمل تھااپنی قوم کے لئے وقف کردیاجوکہ کراچی،ناظم آباد نمبر ٢میں جامعہ امامیہ سے متصل ایک لائبریری مکتبہ العلوم کے نام سے آج بھی قوم کے استفادہ کے لئے موجودہے۔
خطیب اعظم کادوسرا اوراہم کارنامہ جوآپ نے اپنی زندگی کے آخری چندسالوں میں انجام دیاوہ شیعہ قوم کو اجتماعی شعوردلاتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پرجمع کرناتھااس سلسلے میں پانچ تاسات جنوری١٩٦٤ء کوامام بارگاہ رضویہ کالونی کراچی میں کل پاکستان علمائے شیعہ کنوشن کا انعقادکیاگیاجس میں پاراچناراورساحل چین سے لے کرکراچی تک کے سیکڑوں علماء نے شرکت کی،اس اجلاس میں پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی اورایک مجلس علمائے شیعہ پاکستان تشکیل دی گئی جس کاسربراہ خطیب اعظم کومقررکیاگیااورطے پایاکہ مندرجہ ذیل شیعہ مطالبات حکومت کوپیش کئے جائیں۔
١۔آزادانہ طورپرعزاداری امام حسین علیہ السلام کی اجازت ہونی چاہئے اوراس کے تمام تر حفاظتی امورحکومت پرعائدہوتے ہیں۔
٢۔شیعہ اسٹوڈنس کے لئے اسکولوں میں جداگانہ اپنی فقہ کے مطابق نصاب دینیات کاانتظام ہوناچاہئے۔
٣۔درسی کتب سے قابل اعتراض ودل آزارموادکااخراج کیاجائے۔
٤۔تمام ترشیعہ اوقاف کی نگرانی کے لئے شیعہ بورڈکاقیام عمل میں لایاجائے ۔
شیعہ رہنماحضرت علامہ سیدمحمددہلوی،کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن میں طے پانے والی تمام قرار دادوں سے اپنی قوم کوروشناس کرانے کے لئے ملک گیرسطح پردورہ جات کئے اورپاکستان کے گوشہ گوشہ میں اپنے مطالبات دھراتے رہے مگرحکومت نے اپنی گذشتہ تاریخ کے مطابق ہمیشہ کی طرح شیعہ مطالبات کو نظراندازکرنے کاروایتی اندازاپنایاجس کے نتیجہ میں اکتوبر١٩٦٤ء کوعوامی سطح پرملک گیراحتجاج میں حکومت کی اس روایتی اندازکی بھرپورالفاظ میں مذمت کی گئی اورمطالبہ کیاگیاکہ کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن کے تمام ترمطالبات پر عمل درآمد کیا جائے ۔
علامہ سیدمحمددہلوی کی حکمت عملی موثرواقع ہوئی اورصدرایوب خان نے شیعہ اکابرین اورعلماء پرمشتمل ٥٠ رکنی وفدسے ملاقات کی اورشیعہ مطالبات کوحق بجانب سمجھتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لئے پانچ شیعہ اورچارحکومت کی نمائندگی میںمشتمل افرادپرایک کمیٹی بنانے کااعلان کیا۔شیعہ نمائندگی میں جن پانچ افراد کے نام تھے ان میں علامہ سیدمحمددہلوی کے علاوہ مرحوم علامہ مفتی جعفرحسین اعلی ٰ اللہ مقامھم جیسی اہم شخصیات تھیں،چانچہ آپ کی اورآپ کے ساتھیوں کی تگ و دو سے دونومبر١٩٦٨ء کو حکومت نے نصاب تعلیم کے مطالبہ کوتسلیم کرلیا جس پرقوم نے خطیب اعظم کی اس پرخلوص اوربے لوث خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو”قائدملت جعفریہ ”کاخطاب دیا اور اس طرح پہلی بارپاکستان کی تاریخ میں قائدملت جعفریہ پاکستان کاٹائٹل ابھرکرسامنے آیا۔
ادارہ کا مصنف کے اثر سے متفق ہونا ضروری نہیں