رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے درس خارج میں مرجع تقلید حضرت آیت الله حسین وحید خراسانی نے سورہ مبارک یاسین کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آیہ «إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَیْکُم مُّرْسَلُونَ» کی طرف اشارہ کیا اور بیان کیا : اس آیہ میں ارسال کے متعلق دو لوگ ہیں اور جب ارسال خدا کی طرف سے ہو ممکن نہیں ہے کہ بھیجا گیا خدا کی طرف سے نہ ہو ۔
انہوں نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے وضاحت کی : وہ دو لوگ جن کے سلسلہ میں اس آیہ میں بیان کیا گیا ہے وہ حضرت عیسی (ع) کے حواریین ہیں اور ان کے سلسلہ میں قرآن نے مومن ذکر کیا ہے اور مومنان قرآن میں ان لوگوں کے لئے آیا ہے کہ جو صرف اپنے پروردگار پر منحصر اور اس پر توکل رکھتے ہیں ۔
مرجع تقلید نے امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سوال ہوا کہ کیوں حواریوں کا نام حواریین رکھا گیا ، تو امام نے فرمایا : اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ لوگ اپنے نفس میں اخلاص کی منزل تک پہوچ گئے تھے ۔
حضرت آیت الله وحید خراسانی نے اس بیان کے ساتہ کہ انسان اخلاص تک پہوچنے کے لئے تین منزل کو طے کرے وضاحت کی : خلوص کی پہلی منزل خیالات اور نظریات میں ہے اور انسان کو چاہیئے کہ اس منزل تک ایسے پہوچے کہ اس کے فکر میں غش (دھوکہ) نہ پایا جاتا ہو ۔
انہوں نے صفات میں خلوص کو اخلاص تک پہوچنے کی دوسری منزل جانا ہے اور بیان کیا : اعمال میں خلوص تیسرا منزل ہے کیونکہ انسان فکر ، خلق و عمل کا مرکب ہے ۔
مرجع تقلید نے وضاحت کی : حوارین وہ لوگ تھے جو کہ اپنے انفس میں اس خلوص کے اس مقام تک پہوچ گئے تھے کہ نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی خالص کر دیا تھا ۔
حضرت آیت الله وحید خراسانی نے وضاحت کی : یہ دو لوگوں کو خداے یکتا کی طرف دعوت کرتے تھے اور بت کی پرستش کرنے والوں کو بت کی پرستش سے دوری کی شفارش کرتے تھے لیکن ان کو عوام کی طرف سے جھٹلایا گیا اور قید میں تشدد کا شکار ہونا پڑا ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتہ کہ سب موجودات کو خدا سے وابسطہ ہونا ہے اور سبھوں کو اس کی طرف لوٹنا ہے بیان کیا : اگر انسان جان لے کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے تو اپنی اہمیت خود جان لے گا ۔