تحریر: ثاقب اکبر
تبدیلی ایک مسلسل اور وقوع پذیر ہوتا رہنے والا مظہر (Phenomena) ہے۔ بقول اقبال:
ع ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
یعنی ثبات صرف تغیر کو حاصل ہے۔ تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ تبدیلی کس طرح کی آرہی ہے۔ آنے والی تبدیلی مطلوب ہے یا غیر مطلوب، تباہ کن ہے یا مسرور کن، حوصلہ افزا ہے یا دل شکن۔
اسی طرح تبدیلی کا حلقہ اور حدود بھی اہم ہیں۔ کس درجے اور پیمانے کی تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ اس کے اثرات کتنے گہرے اور کتنے وسیع ہوں گے۔ اس کا عمق کتنا ہے اور پہنائی کتنی ہے۔ بعض واقعات، بعض شخصیات اور بعض حادثات تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مسلسل تاریخ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کی مثال لیتے ہیں۔ ہزاروں برس سے ان کی شخصیت تاریخ انسانی پر چھائی ہوئی ہے اور مسلسل نئے واقعات کے ظہور کا باعث بن رہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی ہر روز کی حرکات و سکنات کا باعث ایک ابراہیم (ع) ہیں۔
دنیا میں تین بڑے ادیان اپنے آپ کو حضرت ابراہیم(ع) سے منسوب کرتے ہیں، رائج اصطلاح کے مطابق اسلام ان میں سے ایک ہے۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر کو اس عظیم انسان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی خانۂ کعبہ کی طرف ہر روز کروڑوں انسان رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں بلکہ سارا دن پوری دنیا میں اس گھر کی طرف رخ کرکے انسان صف در صف کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر روز لاکھوں لوگ دنیا کے مختلف خطوں سے اس گھر کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں اور اسی طرح لاکھوں افراد اس گھر کو الوداع کرکے اور پھر آنے کی دعا کرکے اس سے رخصت ہو رہے ہوتے ہیں۔ کروڑوں روپے کا لین دین اسی گھر کی مناسبت سے روزانہ ہو رہا ہوتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں جانوروں کی پرورش کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے، تاکہ ابراہیم(ع) کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کی قربانی دی جاسکے۔ یہ تو ابراہیم کی پر تاثیر زندگی کا ایک پہلو ہے۔ عالم بشریت اور تاریخ بشریت پر ان کے اثرات کا احاطہ ناممکن ہے اور مزید چرخِ تاریخ کو حرکت دینے میں اس ایک انسان نے کیا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کا اندازہ تاریخ اور عناصر حرکت پر معمولی سی نظر رکھنے والے مجھ جیسے طالب علم کے بس کی بات نہیں۔
ایک اور مثال بھی ذکر کی جاسکتی ہے۔ یہ انسان بھی ابراہیم(ع) کی نسل پاک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ عظیم انسان ابراہیم(ع) کے فرزند اسماعیل ذبیح اللہ (ع) کی اولاد میں سے ہے اور ’’ذبح عظیم‘‘ کہلاتا ہے۔ میری مراد آخری رسول حضرت محمد مصطفٰی(ص) کے سبط اصغر سیدالشہداء امام حسین(ع) سے ہے۔ کربلا میں ان کی آمد، نصرت حق کے لئے ان کی قربانی اور نوک نیزہ پر ان کے سر مبارک کی بلندی کے بعد انسانیت کی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹا اور پھر اس کے بعد ہر صفحے کی شہ سرخی میں حسین(ع) کے سرخ خون کے رنگ کی آمیزش دکھائی دیتی ہے۔ حسین(ع) اور کربلا پھر انسانی تاریخ کا سرچشمہ بن گئے۔ ایسا سرچشمہ جس کے پانی کی حرارت دلوں کو گرماتی ہے۔ جب ایک دل اس کی حرارت سے دھڑکنا شروع کرتا ہے تو وہ بے قرار ہوجاتا ہے کہ کس طرح اس تپش کا احساس دوسروں میں پیدا کرے۔ یہ قلب تپاں پھر خود ہی اسے راستہ دکھاتا چلا جاتا ہے۔ سچ فرمایا ہے پیغمبر خداؐ نے:
"قتل حسین سے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگی کہ جسے پھر ٹھنڈا نہیں کیا جاسکے گا۔"
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں بنی امیہ کے زوال، بنی عباس کے شعار اور فاطمیوں کی اساس کا ذکر کرتے ہوئے عصر حاضر کے انقلابات کی پیشرفت اور معرکہ آرائیوں میں کارفرما کربلا کی شدتِ حدت کی طرف مسلسل واقعات کے ذریعے اشارہ کرسکتا ہوں، لیکن کیوں نہ عصر حاضر میں کربلا کے مرکز ثقل بن جانے کے زندہ نمونے کے ذکر پر اکتفا کر لی جائے کہ دیدۂ بینا کے لئے یہی بہت ہے۔
جب سے کربلا کی طرف سفر کے راستے کچھ کھلے ہیں، اس کے مسافروں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ سوئے حرم الٰہی رواں دواں قافلوں کی گرد پا مسافرانِ کربلا کی گردپا کو بھی نہیں پہنچتی۔ امام حسین (ع) حرم الٰہی کے عاشق تھے۔ انھوں نے پچیس حج پاپیادہ کئے تھے، لیکن جب سے وہ خانۂ خدا کے تقدس کی خاطر حج سے دو روز پہلے ہی وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوئے، یوں لگتا ہے جیسے اللہ کے اس گھر کی نظریں بھی کربلا کی طرف لگ گئی ہیں۔ کربلا کے زائرین کی تعداد لاکھوں تک نہیں، ملینز تک نہیں بلکہ کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ کعبۃ اللہ کے زائرین کے لئے جو سہولتیں ہیں وہ کربلا کے زائرین کو حاصل نہیں۔ جس امن وامان کا اطمینان عازمین بیت اللہ کو میسر ہے وہ کربلا کے عازمین کو نہیں۔ کربلا کے راہیوں پر مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قافلوں پر دستی بموں سے حملہ، خودکش حملے اور طرح طرح سے قتل و غارت کی وحشت انگیز خبروں نے بھی اس سفر عزیمت کے مسافروں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں کی۔ جس بستی میں کسی مسافرِ کربلا کی لاش پہنچتی ہے، اگلے برس اسی بستی سے زیادہ تعداد میں عاشقانِ حسین عازمِ کربلا ہوتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے دنیا کے عظیم ترین اجتماعات میں کربلا میں اربعین حسینی پر ہونے والے اجتماعات سب سے آگے ہیں بلکہ بہت آگے ہیں۔ عراق کے پسماندہ درماندہ اور مسلسل پامال کئے جانے والے عوام زائرین کربلائے حسینی کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے رہتے ہیں۔ ان کا جی چاہتا ہے کہ زائرین حسینی کی خدمت میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیں۔
آیئے اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں کہ تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مستقبل کی تبدیلیوں، ہمہ گیر تبدیلیوں، انقلاب آفریں تبدیلیوں کا سرچشمہ کربلا بن رہی ہے۔ دنیا کے ذرائع ابلاغ جو استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں وہ اس اٹھان کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ذرائع ابلاغ تو استعماری طاقتوں کے ذرائع ابلاغ کے زیراثر ہیں۔ موجودہ ورلڈ آرڈر نے انسانی چشم بصیرت کے سامنے جو پردہ حائل کر رکھا ہے وہ پردے کے اس پار اٹھنے والے طوفان کی بلند لہروں کا تماشا کرنے نہیں دیتا۔ تعصب کی عینک کے گہرے اور دھندلے شیشے بھی رنگ حقیقت کے تماشے سے محروم کر دیتے ہیں۔ آنے والی تبدیلیوں کو انسان کھلی آنکھوں سے دیکھتا رہے تو پھر آسانی سے ان کا حصہ بن سکتا ہے۔ اگر تبدیلی کسی کے لئے اچانک آپہنچے تو ہوسکتا ہے اس کے لئے ہلا دینے والی ہو۔ ہوسکتا ہے پھر اس سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا مشکل ہوجائے۔
تاہم جس تبدیلی کا سرچشمہ ابراہیم خلیل اللہ، اسماعیل ذبیح اللہ اور حسین سیدالشہداء جیسی ہستیاں بنتی ہیں وہ تبدیلی الٰہی ہوتی ہے۔ اس پر صبغۃ اللہ کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے بندوں کو ہر تفریق سے بے نیاز ہو کر دیکھتی ہے، جیسے خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے والے سب ایک ہوتے ہیں۔ ان میں حاکم و محکوم، گورے، کالے اور امیر وغریب کا کوئی امتیاز نہیں رہتا۔ خلیل اللہ کی پیدا کردہ تبدیلی انسانوں کو ایک کردے گی۔
حسین(ع) کا انقلاب ظلم و جبر کے خلاف انسانوں کو اٹھائے گا۔ یہ انقلاب وحی الٰہی اور آسمانی اقدار کا انکار کرنے والی تہذیب کا خاتمہ کر دے گا۔ یہ انقلاب اصلاح کا پیش خیمہ ہوگا۔ یہ انقلاب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی قوت کے ذریعے رونما ہوگا۔ یہ انقلاب انسانوں کو یزید صفت حکمرانوں کی غلامی سے آزاد کر دے گا اور پھر انسان حسینی قیادت میں کعبۃ اللہ اور حرم امنِ الٰہی کا رخ کریں گے۔ حسین (ع) پھر سے احرام باندھیں گے، اپنا ادھورا حج مکمل کریں گے اور سب انسانوں کو دعوت دیں گے کہ آؤ ہر گھر کا طواف چھوڑ دیں اور صرف اللہ کے گھر کا طواف کریں۔ یوں ایک ہمہ گیر اور عظیم تبدیلی منصہ شہود پر آجائے گی۔ حسینؑ کی نمائندگی ان کے فرزند مہدیؑ کر رہے ہوں گے، جن کے بارے میں سب باآواز بلند مل کر کہتے ہیں:
"دنیا جیسے ظلم و جور سے بھری ہوگی، وہ اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔"
تبدیلی کا سفر جاری ہے۔