04 August 2016 - 15:48
News ID: 422584
فونت
ڈاکٹر قبلہ ایاز کے بقول شیعہ سنی کشمکش پرانی ہے، اس کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ اس کا ایک علمی حوالہ ہے، لیکن موجودہ صورت حال ہمیں پہلے درپیش نہ تھی۔ ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ جو واقعات رونما ہوئے، ان کے بعد یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران میں جو انقلاب برپا ہوا، اس سے پہلے شاہ ایران کی حکومت مذہبی نہ تھی۔ وہ اپنے آپ کو سائرس کے قدیم سلسلے سے جوڑتا تھا، لیکن امام خمینی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت ایک مذہبی حکومت تھی۔ وہ صدور انقلاب کا نظریہ رکھتے تھے۔ البتہ یہ انقلاب مستکبرین کے خلاف مستضعفین کا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کو روکنے کے لئے ایران، عراق جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ ایک طویل جنگ تھی، جو آٹھ سال تک جاری رہی۔
ثاقب اکبر



تحریر: ثاقب اکبر

 

مسلمانوں میں فرقہ واریت کے سراغ کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فوری بعد خلافت کے موضوع پر ہونے والے اختلاف کو دیکھنا ہوگا۔ اس کے بعد صحابہ کرامؓ کے مابین جو اختلافات ہوئے اور مختلف جنگوں میں دونوں طرف صحابہ کرامؓ موجود رہے، جنھیں مشاجرات صحابہ کے نام سے بیان کیا جاتا ہے، فرقہ واریت کی بنیاد بنے۔ اس سلسلے میں دو مختلف نقطہ ہائے نظر رہے ہیں، جن کی روشنی میں تاریخ کی ایک روایت کو سنی روایت کہا جاسکتا ہے اور تاریخ کی دوسری روایت کو شیعہ روایت کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ریاست کے خلاف پرائیویٹ جہاد کا آغاز خوارج سے ہوتا ہے۔ یہ تجزیہ ملک کے نامور دانشور اور پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ’’بین المسالک ہم آہنگی کا بیانیہ اور لائحہ عمل‘‘ کے زیرعنوان ایک ورکشاپ میں پیش کیا۔ یہ ورکشاپ گذشتہ دنوں ادارہ امن و تعلیم کے زیراہتمام اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے تعاون سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس دو روز تک اسلام آباد میں جاری رہی اور پھر تین روز نتھیا گلی میں اس کے مختلف سیشن منعقد ہوئے۔

 

کانفرنس میں موضوع کی مناسبت سے مختلف مقالے پیش کئے گئے اور ماہرین نے اپنے تجزیات پیش کئے۔ سوال و جواب اور نقد و جرح کا سلسلہ تمام نشستوں میں جاری رہا۔ ہر ایک نے کھل کر اپنے دل کی بات کہی اور پھر جواب بھی کھلے دل سے دیئے گئے۔ مکالمے کی نہایت خوبصورت فضا پوری ورکشاپ میں چھائی رہی اور بالآخر مزید ہم آہنگی اور قربتوں کو پیدا کرکے ورکشاپ اپنے اختتام کو پہنچی۔ ہم نے گذشتہ دنوں اس ورکشاپ میں معروف استاد اور دانشور محقق پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود کے پیش کئے گئے افکار کا خلاصہ پیش کیا تھا۔ سطور ذیل میں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز کے لیکچر کے اہم نکات کو اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ حسن بن صباح کی تحریک بھی بہت خون آشام تھی۔ ان کا مرکز ایران میں قلعہ الموت تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اسماعیلیہ تحریک سے منسلک کرتے تھے۔ اس میں حکمرانوں پر قاتلانہ حملے کے لئے جن افراد کو استعمال کیا جاتا تھا انھیں فدائی کہا جاتا تھا۔ آج کے دور میں پھر سامنے آنے والی فدائی کی اصطلاح سب سے پہلے اسی تحریک میں استعمال کی گئی۔ ان کے فدائین کو حشیشین بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ حشیش پلا کر ان کے ذہن کو ماؤف کر دیا جاتا تھا۔

 

انھوں نے سلجوق دور کے وزراء پر قاتلانہ حملے کئے۔ نزاری اسماعیلی اسی سلسلے سے اپنے آپ کو منسلک کرتے ہیں۔ فاطمی خلافت جس کا مرکز قاہرہ تھا، وہ آخری دور میں نزاری اور مستعلی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ آج کے آغا خانی نزاری سلسلے کی یادگار ہیں اور بوہری اسماعیلی مستعلی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فاطمی خلافت کے دور ہی میں جامع الازہر قائم ہوئی، جو عالم اسلام کی پہلی یونیورسٹی ہے۔ پروفیسر قبلہ ایاز نے اس تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کے بعد برصغیر ہندو پاک کی فرقہ وارانہ تاریخ کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ شیر شاہ سوری نے ہمایوں سے حکومت چھینی تھی۔ ہمایوں فرار ہوکر ایران جا پہنچا۔ جہاں پر صفویوں کی حکومت تھی، جو شیعہ تھے۔ انہی کے تعاون سے ہمایوں نے ہندوستان میں پھر سے اپنی حکومت قائم کی۔ وہ جس فوج کے ساتھ ہندوستان آیا، اس میں بہت سے شیعہ بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا کہ تاہم اس سے شیعہ سنی تفریق پیدا نہ ہوئی، ہندوستان میں شیعہ حکمران بھی آئے اور سنی بھی، لیکن انھیں شیعہ سنی کے عنوان سے نہیں دیکھا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیپو سلطان جن کا نام فتح علی تھا اور جو سلطان حیدر علی کے بیٹے تھے، شیعہ تھے لیکن سب ان کا احترام کرتے ہی۔ انھوں نے شعراء کی بھی مثالیں دیں اور کہا کہ غالب جس کے بغیر اردو شاعری کا تصور نہیں کیا جاسکتا، شیعہ تھے، جنھیں ہر کوئی خراج تحسین پیش کرتا ہے اور ان کی شاعرانہ عظمت کو سلام کرتا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر غالب کا یہ مشہور شعر پڑھا؂


غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگئ بو تراب میں

 

ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ شیعہ سنی کشمکش پرانی ہے، اس کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ اس کا ایک علمی حوالہ ہے، لیکن موجودہ صورت حال ہمیں پہلے درپیش نہ تھی۔ 1980ء کے لگ بھگ جو واقعات رونما ہوئے، ان کے بعد یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ 1979ء میں ایران میں جو انقلاب برپا ہوا، اس سے پہلے شاہ ایران کی حکومت مذہبی نہ تھی۔ وہ اپنے آپ کو سائرس کے قدیم سلسلے سے جوڑتا تھا، لیکن امام خمینی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت ایک مذہبی حکومت تھی۔ وہ صدور انقلاب کا نظریہ رکھتے تھے۔ البتہ یہ انقلاب مستکبرین کے خلاف مستضعفین کا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کو روکنے کے لئے ایران، عراق جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ ایک طویل جنگ تھی، جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ عراق کے صدر صدام حسین اس جنگ کو قادسیہ کی جنگ کہتے تھے۔ انھوں نے اس سلسلے میں جو فلمیں تیار کروائیں، ان میں قادسیہ کی تاریخی جنگ کو فلمایا گیا تھا۔ وہ فلم بڑی موثر تھی جو عراقیوں کو دکھائی جاتی تھی تو ان کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اس جنگ میں ہی عرب و عجم کی جنگ کا تصور پیدا کیا گیا۔ اس میں تمام عرب حکمران عراق کی حمایت کر رہے تھے۔ امریکا بھی ایران کے خلاف عراق کا مددگار تھا۔ اس جنگ نے دونوں ملکوں کو بہت کمزور کر دیا۔

 

ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ اسی دور میں افغانستان میں روسی داخل ہوگئے۔ ان کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کے لئے سعودی عرب نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ سعودی عرب نے اس دوران میں سلفیوں کو بہت تقویت دی۔ افغان کمانڈر عبدالرسول سیاف بہت اہمیت رکھتے تھے، سعودی عرب نے مدد دینے کے لئے ان پر زور دیا کہ وہ اپنا نام تبدیل کرلیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنا نام عبدالرب رسول سیاف کر لیا۔ ہمارا قبائلی خطہ پہلے ہی سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی سکھوں کے خلاف تحریک میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے۔ سکھ اس تحریک پر غالب آگئے تھے۔ اس تحریک کے بچے کچے لوگ افغانستان کے صوبہ کنڑ اور دیگر صوبوں میں جا بسے تھے۔ بہرحال پاکستان میں سلفی فکر کی سپورٹ کی گئی، دیہی علاقوں میں بھی بڑی بڑی سلفی مسجدیں قائم کی گئیں، ایسے علاقے جہاں سلفی آبادی بھی نہ ہونے کے برابر تھی، وہاں بھی بڑی بڑی مسجدیں بن گئیں۔ پاکستان کے اندر رفتہ رفتہ اس کے اثرات پھیلتے چلے گئے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی فکر انگیز گفتگو جاری ہے، جسے ہم آئندہ نشست میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬