02 August 2016 - 23:30
News ID: 422580
فونت
کشمیری مسلمان دوسری مسلم قوموں سے ہرگز جدا نہیں۔ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ آج شام، فلسطین اور کشمیر میں دشمن انسانیت کے ظلم وستم کی بھڑکائی ہوئی آگ میں گویا سارے جہاں کے مسلمان جل رہے ہیں۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمانوں کے بہت سارے فرائض اور حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کی حفاظت کرنا، ایک دوسرے کے دکه سکه میں شریک ہونا اہم فرائض میں سے ہیں۔
کشمیر

 

 

تحریر: محمد حسن جمالی

 

بقول بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیر حسن اور خوبصورتی میں کم نظیر رکهتا ہے۔ کشمیرکے بغیر نہ پاکستان کا کوئی حسن ہے اور نہ ہی پاکستان کا نقشہ مکمل۔ اس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ بسے ہوئے ہیں، جو ہندو حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہر دور میں اقلیتی گروہ کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا اس حکومت کا خاصہ رہا ہے۔ سب سے ذیادہ مسلم کمیونٹی اس حکومت کے ستم کا شکار رہی ہے اور ہے۔ عرصہ دراز سے کشمیر کے مسلمان ہندو مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ خون میں لہولہان ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے وجود کو خطہ کشمیر سے مٹانے پر ہندو حکومت پورا زور لگا رہی ہے۔ مسلمانوں کو خون میں لت پت کرنا ظالم ہندو حکمرانوں کا محبوب مشغلہ بنا ہواہے۔ نہ وہ مسلمان بوڑهوں کا احترام کرتے ہیں اور نہ ہی بچوں اور عورتوں پر رحم کرتے ہیں، بلکہ ہندو حکومت کے پتهر دل فوجی وسپاہی ہر لمحہ مسلمانوں کی نشانی لیتے رہتے ہیں- کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر مسلمانوں پر گولی چلاتے رہتے ہیں - وہ ہمیشہ خون مسلم کے پیاسے رہتے ہیں۔ غرض جو بهی ستم کے طریقے تهے، سب کے ذریعے متعصب ہندووں نے مسلمانوں کو آزمایا۔

 

انہوں نے اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل اور ہوس رانی و عیاشی کی راہ میں مسلمانوں کو سب سے بڑا مانع پایا، جس کے سبب انہوں نے مسلمانوں کو دبانے، کچلنے اور نیست ونابود کرنے کے لئے پوری طاقت استعمال کی اور کر رہے ہیں۔ وہ قتل وغارت کرکے، خوف پھیلا کر اور ڈرا دھمکا کر مسلمانوں کو آذادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس ناپاک عزم اور مزموم ہدف کو پورا کرنے کے لئے کشمیری مسلمانوں کے حصول آزادی کی تلاش کو دہشت گردی قرار دینے پر وہ مصر ہیں۔ جب کہ ہر انسان کو خالق نے آذاد خلق کیا ہے۔  اور حصول آذادی کی جدوجہد کرنا عقل سلیم کا پسندیدہ فعل اور پوری دنیا کے انسانوں کا ایک مسلمہ حق ہے۔ غلامی و قید وبند کی زندگی سے دنیا کا ہر باشعور انسان نفرت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری غیور مسلمان حصول آذادی کے لئے بهرپور جدوجہد کررہے ہیں اور اس راہ میں اپنا سب کچهہ قربان کررہے ہیں۔ اپنی عزیز جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ کشمیر کے اندر نہ مسلمانوں کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی ناموس کی عزت۔ صرف 2010 کے اعدادوشمار کے مطابق 447 کشمیریوں کو بھارتی ظالم فوج نے بھون ڈالا اور 6076 عام شہری زخمی ہوئے۔ 132 گھروں کی تلاشی لی گئی، درنتیجہ 2188 کشمیری گرفتار ہوئے۔ ان میں سے گیارہ زیرِ حراست افراد غائب کر دئیے گئے یہ صرف ایک سال کے اعداد و شمار ہیں، تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر کیا صورتِ حال ہوگی۔

 

کشمیر میں عوامی حصول حریت کا سب سے اہم دور ہماری معلومات کے مطابق 80 کی دہائی کے اواخر سے شروع ہو کر 90 کی دہائی کے وسط تک کا تھا۔ اس دوران کشمیری عوام نے بھارتی تسلط سے نجات حاصل کرنے کیلئے بھر پور جدو جہد  شروع کی، جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری اپنی جانوں سے هاته دهو بیٹهے اور اس سے بڑی تعداد غائب اور زخمی ہوئی۔ چند ہفتے پہلے کشمیری مسلمانوں کی صورتحال ایک بار بہت شدید بگڑ چکی ہے۔ مسلمانوں کو سرعام گولیوں سے بھون رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت شروع ہوئی, جب ہندو متعصب فوج نے ایک بہادر اور نڈر کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا، جو خود تو شہید ہوکر سعید بن چکے، مگر ظالم ہندوؤں کے ظلم و جبر کے خلاف ایک علامت بن کر ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔ برہان مظفر وانی نے مسلم جوانوں میں غیرت، غلامی سے نفرت کی تازہ روح ڈالی۔ ان میں حریت کا شوق اور جزبہ فداکاری پیدا کر دیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیری مسلمان بیدار ہوچکے ہیں اب وہ کسی چیز سے ڈرنے والے نہیں اور تاریخ بشریت بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے حق اور آزادی کیلئے کمر باندھ لے تو اُسکے حصول میں تاخیر تو ہو سکتی ہے مگر بالآخر وہ اُسے حاصل کرکے ہی رہتی ہے۔

 

سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کیا کشمیر سے باہر کے مسلمانوں کو کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش رہنا چاہئے؟ یا ان کا بھی کوئی وظیفہ بنتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ کشمیری مسلمان دوسری مسلم قوموں سے ہرگز جدا نہیں۔ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ آج شام، فلسطین اور کشمیر میں دشمن انسانیت کے ظلم وستم کی بھڑکائی ہوئی آگ میں گویا سارے جہاں کے مسلمان جل رہے ہیں۔ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمانوں کے بہت سارے فرائض اور حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کی حفاظت کرنا، ایک دوسرے کے دکه سکه میں شریک ہونا اہم فرائض میں سے ہیں۔ پیغمبرؑ گرامی اسلام کا یہ صریح ارشاد ہے کہ جو کوئی مسلمانوں کے امور کے بارے میں اہتمام کئے بغیر صبح کرے وہ مسلمان نہیں۔ نیز آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی مظلوم کسی مسلمان کو مدد کے لئے پکارے اور وہ اس کی مدد نہ کرے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ نیز فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کا ساتهہ چھوڑتا ہے اور نہ اسے حوادث کے حوالے کرتا ہے۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬