رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمعیت علما پاکستان کے صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ھندوستانی مظالم پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ نائن الیون کے بعد سے دنیا میں بدامنی میں شدت پیدا ہوئی ہے، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے امن کے نام پر دہشتگردی کو جنم دیا، آج عراق، شام، یمن، بحرین، لیبیا، افغانستان اور حتیٰ کہ مدینہ منورہ میں ہونیوالی بدامنی کے پیچھے امریکی لابی ہاتھ ہے کہا: آج جب کہ بدامنی اور دہشتگردی کو لگام ضروری ہے انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔
جمعیت علما پاکستان کے صدر نے مقبوضہ کشمیر میں ھندوستانی مظالم پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا اور کہا: بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کریں ۔ انڈیا سے مذاکرات صرف کشمیر پر کئے جائیں، اگر ہندو بنیا نہیں مانتا تو اس کیساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے نیا لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ھندوستان کے ساتھ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے کہا: اقوام متحدہ، او آئی سی، گلف کونسل، 34 ممالک کے اتحاد اور عرب لیگ میں سے کسی نے بھی کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کیخلاف آواز بلند نہیں کی، جو کہ بے حسی کی انتہا ہے۔ ھندوستان اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ملک بن چکا ہے، جہاں صرف مسلمان اور مسیحی ہی نہیں، دلت اور دیگر ہندو اقوام بھی برہمنوں کے تعصبات کا شکار ہیں، جنہیں اپنے سوا کوئی انسان نظر نہیں آتا ۔
پیر اعجاز ہاشمی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم لے کر بھارتی فوج کے سامنے پاکستان سے الفت و محبت کا اظہار کرتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا ہے،تو ہم کیوں خاموش ہیں اور نعرہ نہیں لگاتے کہ کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے کہا : کشمیر آتش فشاں بن چکا ہے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، عالمی ادارے ہوش کے ناخن لیں، 7 لاکھ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں سے خائف ہے، کیونکہ ان میں جذبہ شہادت اور آزادی کی تڑپ موجود ہے، اب پاکستانی حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کریں، اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کے پلیٹ فارم او آئی سی کو آئی سی یو سے باہر آنا چاہئے۔