26 December 2016 - 16:45
News ID: 425310
فونت
فلسطین کا مسلمان پوچھتا ہے کہ ہم تو ۱۹۴۸ء سے نسل پرست یہودی دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ہماری یعنی فلسطین کی آزادی کیلئے تو کوئی داعش، کوئی جبھۃ النصرہ یا جیش الفتح کبھی نہیں بنائی گئی۔ سعودی عرب، ترکی اور قطر نے امریکا کے ساتھ مل کر اسرائیل کی نابودی کے لئے تو کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ شام کی بشار الاسد حکومت میں ایسی کونسی برائی آگئی جو اس سے چھٹکارا پانا زیادہ اہم ہوگیا؟ کیا غزہ کے محاصرے کے خاتمے کے لئے ان مسلح تنظیموں کو غزہ نہیں بھیجا جاسکتا تھا؟ کیوں غزہ پر بمباری کے خلاف سعودی عرب نے فوجی اتحاد نہیں بنایا؟ کیوں سعودی عرب کے امریکا سے اتحاد پر عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان ایک مخصوص مذہبی طبقہ جسے ابھی برما کے ساتھ شام کے مسلمان یاد آئے ہیں، وہ کیوں خاموش رہا اور تاحال کیوں خاموش ہے۔؟ مسلمانوں کو کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ غزہ اور مغربی کنارے اور خاص طور پر مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمان فلسطینیوں پر جو ظم و ستم ہو رہا ہے، وہ شام کے حالات خراب کرنے سے پہلے سے ہو رہا تھا اور شام کا مسئلہ پیدا ہی اس لئے کیا گیا، تاکہ فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے مظالم سے
شام


 
تحریر: عرفان علی

عرب ملک شام کے شمالی صوبے حلب کے صدر مقام شہر حلب کے مشرقی حصے پر شام کی فوج نے جب سے دوبارہ کنٹرول حاصل کیا ہے، عالم اسلام کو ایک اور مرتبہ سگے اور سوتیلے بیٹوں میں تقسیم کرکے سوتیلے بیٹوں کے احساس محرومی و کمتری کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ اس سگے سوتیلے بیٹوں کی تفریق کا سب سے بڑا مرکز ایک اور مرتبہ پاکستان کو بنایا گیا ہے۔ سگے بیٹوں کو یاد آیا ہے کہ شام اور برما میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ ٹائمنگ اور ملک اہم ہے کیونکہ پاکستان ہی ایسی سرزمین ہے کہ جہاں ان سگے بیٹوں کو جھوٹ پر مبنی دشمنان اسلام کے پروپیگنڈا کے فروغ اور دشمنوں کے ایجنڈا پر کام کرنے کا اتنا وسیع تجربہ ہوچکا ہے کہ ان کے ضمیر ہی مردہ ہوچکے ہیں۔ شرم و حیاء سے انہوں نے ناطہ توڑ کر امریکا، جعلی ریاست اسرائیل کے تھرڈ کلاس اتحادی اور خائن حکمرانوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ لیکن اتمام حجت کے لئے عالم اسلام کے سوتیلے بیٹے بھی اپنا مقدمہ پیش کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ فلسطین اور یمن میں آباد مظلوم مسلمانوں کا سوال ہے کہ کیا ہم عالم اسلام کے بیٹے نہیں؟ کیا ہم پر بم نہیں برسائے جا رہے؟ کشمیری چونکہ قریب ہی ہیں، لہٰذا وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی ان مسلمان مذہبی جماعتوں کا اصل ہدف کیا ہے، اس لئے وہ اتنے زیادہ پریشان نہیں ہیں۔ البتہ فلسطین اور یمن کے مسلمانوں کی جانب سے پاکستان کے ان نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی خدمت میں بہت ساری شکایات پیش کی جاسکتی ہیں۔

فلسطین کا مسلمان پوچھتا ہے کہ ہم تو 1948ء سے نسل پرست یہودی دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ہماری یعنی فلسطین کی آزادی کیلئے تو کوئی داعش، کوئی جبھۃ النصرہ یا جیش الفتح کبھی نہیں بنائی گئی۔ سعودی عرب، ترکی اور قطر نے امریکا کے ساتھ مل کر اسرائیل کی نابودی کے لئے تو کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ شام کی بشار الاسد حکومت میں ایسی کونسی برائی آگئی جو اس سے چھٹکارا پانا زیادہ اہم ہوگیا؟ کیا غزہ کے محاصرے کے خاتمے کے لئے ان مسلح تنظیموں کو غزہ نہیں بھیجا جاسکتا تھا؟ کیوں غزہ پر بمباری کے خلاف سعودی عرب نے فوجی اتحاد نہیں بنایا؟ کیوں سعودی عرب کے امریکا سے اتحاد پر عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان ایک مخصوص مذہبی طبقہ جسے ابھی برما کے ساتھ شام کے مسلمان یاد آئے ہیں، وہ کیوں خاموش رہا اور تاحال کیوں خاموش ہے۔؟ مسلمانوں کو کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ غزہ اور مغربی کنارے اور خاص طور پر مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمان فلسطینیوں پر جو ظم و ستم ہو رہا ہے، وہ شام کے حالات خراب کرنے سے پہلے سے ہو رہا تھا اور شام کا مسئلہ پیدا ہی اس لئے کیا گیا، تاکہ فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے مظالم سے عالم اسلام کو غافل کیا جاسکے۔

دنیائے اسلام کا سوال ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کا فرقہ اور مسلک کیوں نہیں بتایا جا رہا اور ان کی زمین غصب کرنے والے، ان کا قتل عام کرنے والے اسرائیل کا مسلک کیوں بیان نہیں کیا جا رہا؟ فلسطین کے مسلمان نہ تو شام کے سوتیلے بیٹوں کی طرح علوی ہیں، نہ ہی یمن کے سوتیلے بیٹوں کی طرح زیدی ہیں! پاکستان کے سعودی نواز علماء کیوں بھول جاتے ہیں کہ فلسطین کے مسلمان بھی سنی عرب ہیں، ان کی مدد کے لئے آپ کا ہیرو محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کیوں نہیں آرہا۔؟ اور آج کے دور کے آپ کے سارے ہیروز شام ہائے شام کی گردان کیوں کر رہے ہیں؟ شام کے برابر میں ہی تو فلسطین کے وہ مقبوضہ علاقے ہیں، جن پر نسل پرست دہشت گرد جعلی ریاست اسرائیل قائم کی گئی ہے۔ لیکن وہاں تو شام کی اسرائیل دشمن حکومت پر حملہ آور دہشت گردوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ فلسطین کے غاصب کو ان مذہبی لوگوں سے کیوں اتنی ہمدردی ہوگئی کہ ان کا علاج کر رہا ہے۔! برما (میانمار) کے مسلمان بے چارے تو ایک طویل عرصے سے مظلوم ہیں۔ شام کی جنگ سے بھی بہت پہلے سے ان پر ظلم و ستم روا رکھا جا رہا تھا۔

داعش، القاعدہ، طالبان، سپاہ صحابہ، ASWJ، لشکر جھنگوی، جنداللہ، جبھۃ النصرہ، جیش الفتح اور دیگر متعدد ناموں سے پاکستان، عراق اور شام میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے گروہ برما کیوں نہیں چلے گئے۔ اس کے برعکس یہ سب حلب میں کیوں جمع ہوگئے۔ وہاں ایسی کونسی برائی پیدا ہوگئی تھی، جس کا خاتمہ فلسطین اور برما کے مسلمانوں کی مظلومیت سے زیادہ فوری توجہ کا طالب تھا؟ شام نامی عرب ملک میں اگر کوئی خراب حکومت بھی تھی تو کیا وہ آل سعود کی بدبخت بادشاہت سے بھی زیادہ بری تھی اور کیا ان سے زیادہ پرانی تھی؟ اردن، قطر، متحدہ عرب امارات وغیرہ کے شاہ و شیوخ بھی بشار الاسد کی حکومت سے زیادہ پرانے تھے اور بشار الاسد تو فلسطین کا دوست تھا اور یہ سارے شاہ و شیوخ تو درپردہ جعلی ریاست اسرائیل کے دوست بن چکے تھے۔ یہ شاہ و شیوخ آج بھی محفوظ ہیں اور عالم اسلام کے برہمن اور سگے بیٹے بنے ہوئے ہیں، ان کی پالیسیوں پر تو پاکستان کے نام نہاد مذہبی طبقے کے سوشل میڈیا کے چیمپین ہمیشہ خاموش رہے ہیں۔ کیا یہ خاموشی صرف اس لئے کہ فرق صرف ایک ہی ہے کہ شاہ و شیوخ امریکا کے اعلانیہ اتحادی ہیں، جبکہ شام کی حکومت کو امریکا ناپسند کرتا تھا۔ پاکستان کا یہ نام نہاد مذہبی طبقہ بتائے کہ امریکا اگر مردہ باد ہے تو پھر سعودی عرب سمیت شاہ و شیوخ کی موروثی بادشاہتیں کیوں کر زندہ باد ہوگئیں۔؟

دنیا حقیقت کی طرف متوجہ ہوچکی ہے، کیونکہ عالم اسلام کے حقیقی اور غیرت مند فرزندوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ کسی کا سوتیلا پن انہیں ان کے اسلامی کردار سے باز نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کے اس نام نہاد مذہبی طبقے کو شام اور برما کے مسلمانوں کی مظلومیت حلب کی آزادی پر یاد آرہی ہے، جبکہ حلب میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والوں نے تحریری طور پر لکھ کر شکست تسلیم کی ہے۔ ان کی شکست کے اعتراف کو چھپانے کے لئے ہائے ظلم ہائے ظلم کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ معرکہ حلب کے چار سال پانچ مہینوں میں مشرقی حلب پر کنٹرول شام کی حکومت کا نہیں تھا بلکہ انہی کا تھا جن کے مظالم کو چھپانے کے لئے مصر میں جعلی وڈیوز بنائی جا رہی تھیں، تاکہ ناکردہ مظالم کا الزام بشار الاسد کی حکومت پہ لگایا جاسکے۔ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، وہ افراد جنہوں نے مصر میں جعلی وڈیو کے لئے فنکاروں کو جمع کیا، بچوں پر خونیں میک اپ کرکے ان کی فلم بنا رہے تھے، تاکہ دنیا میں یہ جھوٹ پھیلا اور شام کی حکومت کو بدنام کرسکیں۔ اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر ہی ان کی جعلسازی کا پردہ چاک کیا گیا ہے کہ کس طرح چار پانچ مرغیوں کو ذبح کرکے خون پھیلاکر ان میں ایک بچے کو لٹا کر یہ تاثر دیا گیا کہ شام کی فوج نے اسے مارا ہے۔ ایک ایسی بچی بھی دکھائی جاچکی ہے، جس کے ساتھ مختلف تنظیموں نے مختلف اوقات میں تصاویر کھنچوائیں کہ اس لڑکی کو انہوں نے بچایا ہے۔ یہ جھوٹ بھی پکڑا جاچکا ہے۔ بانا نام کی چھوٹی بچی کے نام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ بنایا گیا، جبکہ وہ لڑکی حلب میں کہیں تھی ہی نہیں، بلکہ اسے ترکی میں کہیں رکھا گیا تھا۔ یہ جھوٹ بھی پکڑا گیا۔

اس کے علاوہ داعش اور نیابتی جنگ لڑنے والے دیگر گروہوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کے افراد مارے گئے۔ ان سارے گروہوں نے شام کے عوام کو بالکل اسی طرح مارا، جس طرح عراق میں ایزدی المعروف یزیدی گروہ کے لوگوں کا قتل عام کیا اور ان کی خواتین کے ساتھ بھی درندگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن چونکہ ان کا آقا امریکا اور سعودی عرب عراق جنگ میں اتحادی تھے، اس لئے وہاں کی خبریں دبا دی گئیں۔ شام میں امریکی طیاروں نے بمباری کی، اس کے نتیجے میں کیا نقصانات ہوئے، اس کی تفصیلات الجزیرہ اور العربیہ نے کیوں چھپائیں؟ سعودی طیارے بھی عراق میں امریکی اتحاد کا حصہ ہیں، ان کی کارروائیوں میں مسلمانوں کے علاقوں میں کیا ہوا، اس پر بھی پاکستان کا مخصوص مذہبی طبقہ خاموش ہے، کیوں؟ اس حقیقت کو کیوں چھپایا جا رہا ہے کہ داعش محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیروکاروں کا گروہ ہے اور یہی سعودی بادشاہت کا سرکاری مسلک ہے۔؟  سوال یہ بھی ہے کہ یمن پر سعودی عرب نے جنگ کیوں مسلط کی؟ کیا یمن کے حوثی مسلمان عرب نہیں تھے۔؟ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد نے یمن پر بمباری کی۔ اسکول، مساجد، مارکیٹیں، گھر، اسپتال سبھی کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔ سعودی عرب نے ہزاروں مسلمان عربوں کا قتل عام کیا۔ ان مظالم پر خاموشی کیوں؟ صرف برما اور شام کیوں؟ اور شام میں ہونیوالے مظالم بھی حکومت کے کھاتے میں کیوں؟ ظلم تو انہوں نے کئے، جنہوں نے دہشت گردی کی، وہ غیر ملکی جنہوں نے ایک آزاد و خود مختار ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی اور امریکی و اسرائیلی جنگ کا ایندھن بنے۔

جنہیں شک ہے کہ اس جنگ میں جعلی ریاست اسرائیل ملوث نہیں۔ وہ 1996ء میں نیتن یاہو کی پہلی حکومت کے لئے لکھی جانے والی دستاویز  A Clean Break: A New Strategy for Securing the Realm میں موجود یہ جملے پڑھے کہ صہونی ریاست نے شمالی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے شام، حزب اللہ اور ان کے اتحادی ملک ایران کے خلاف کیا حکمت عملی بنائی تھی۔

Securing the Northern Border
Syria challenges Israel on Lebanese soil. An effective approach, and one with which American can sympathize, would be if Israel seized the strategic initiative along its northern borders by engaging Hizballah, Syria, and Iran, as the principal agents of aggression in Lebanon, including by:
striking Syria146s drug-money and counterfeiting infrastructure in Lebanon, all of which focuses on Razi Qanan.
paralleling Syria146s behavior by establishing the precedent that Syrian territory is not immune to attacks emanating from Lebanon by Israeli proxy forces.
striking Syrian military targets in Lebanon, and should that prove insufficient, striking at select targets in Syria proper.

یہ جنگ جعلی ریاست اسرائیل کے دفاع کے لئے ہے۔ مخصوص مذہبی طبقہ مسلکی پوائنٹ اسکورنگ کرکے بدنامی کا ایک اور تمغہ اپنے سینے پر سجانے سے گریز کرے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬