رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی وزیرخارجہ عاد الجبیر نے امریکا اور صیہونی حکومت کی ایران فوبیا پھیلانے والی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے ڈیوس اجلاس کے موقع پر دعوی کیا کہ ایران فرقہ وارانہ پالیسی پر عمل اور دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے بھی ڈیوس اجلاس میں کہا کہ ان کے لئے اہمیت کا حامل جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی سے روکا جائے۔
نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ان کے لئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ ایٹمی معاہدے کی حفاظت کی جائے گی یا اس کو منسوخ کردیا جائے گا۔ صیہونی حکومت کے وزیراعظم نے دعوی کیا کہ ایٹمی معاہدہ ایران کو یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ آئندہ آٹھ سے دس برس میں ایک سو سے لے کر دوسو تک ایٹمی وارہیڈز بنانے کے لئے یورینیم افزودہ کرلے گا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے دعوی کیا کہ ایران میں معائنے اور تحقیقات کا عمل مشکل ہے اور تہران کا کہنا ہے کہ وہ فوجی مراکز کے معائنے کی اجازت نہیں دے گا۔ نتن یاہو نے ڈیووس میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات میں کہا کہ اگر واشنگٹن ایٹمی معاہدے سے الگ ہوجاتا ہے کہ تو تل ابیب امریکا کا ساتھ دے گا۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ اس کی دفاعی حکمت عملی میں ایٹمی ہتھیاروں یا عام تباہی پھیلانے والے اسلحے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور رہبرانقلاب اسلامی نے بھی واضح طور پر یہ فتوی جاری کر رکھا ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانا یا رکھنا حرام ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم اور امریکی صدر نے ڈیوس میں اپنی اس ملاقات میں علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنے کے طریقوں پر بھی بات چیت کی۔ اسی طرح کی باتیں اور دعوے امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال رایان نے اپنے دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی کی ہیں۔
گذشتہ برس بیس مئی کو ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے بعد پال رایان کا بھی سعودی عرب کا دورہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا اپنے ہتھیار سعودی عرب کو فروخت کرکے ریاض سے زیادہ سے زیادہ دولت اور ثروت حاصل کرنے کا مکمل تہیہ کئے ہوئے ہے۔
ٹرمپ نے گذشتہ برس مئی میں انجام پانے والے اپنے دورہ سعودی عرب میں ریاض کو امریکی ہتھیار فروخت کرنے کے لئے چار سو ساٹھ ارب ڈالر کی مالیت کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰